Latest News

گجرات یونیورسٹی میں نماز پڑھنے پر غیرملکی طلباء پر ہندو انتہا پسندوں کا حملہ، دو طلبہ زخمی، سرکار نے دیا سخت کاروائی کا حکم، دو ملزم گرفتار، اسد الدین اویسی کا سخت رد عمل، وزارت خارجہ کی کاروائی کی یقین دہانی۔

نئی دہلی: احمد آباد میں واقع گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم افغانستان اور ازبکستان سمیت دیگر غیر ملکی طلباء کو 16 مارچ کی رات کو ہاسٹل میں نماز تراویح ادا کرنے پر مبینہ طور پر ہندوتوا کے ہجوم کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طلباء اپنے ہاسٹل میں تراویح ادا کر رہے تھے، جس ہر شدید ردعمل ہوا۔ واقعے کی ویڈیوز آن لائن منظر عام پر آگئیں۔ اس سلسلے میں گجرات حکومت اور پولیس کمشنر نے سخت کاروائی کے یقین دہانی کرائی اور شام کے وقت دو ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا۔
متاثرہ طلبا  نے الزام لگایا کہ ہجوم نے اسلامو فوبک اور ہندو مذہبی نعرے جیسے ’جے شری رام‘ لگائے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر مختلف ہتھیار جیسے چاقو، کرکٹ کے بلے اور پتھر استعمال کئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ پولیس موجود تھی، لیکن انہوں نے حملہ آوروں کو بغیر کوئی کارروائی کیے جانے کی اجازت دی۔  ریاستی سرکار نے اعلی پولیس حکام کو معاملہ کی انکوائری کرنے اور کارروائی کا حکم دیا ہے۔
آن لائن سامنے آنے والی ویڈیوز میں ہاسٹل کے سیکیورٹی گارڈ کو ہجوم کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن حملہ آوروں کو روکنے میں ناکام رہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی طالب علم زخمی ہوئے ہیں اور انہیں احمد آباد کے ایس وی پی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ حالانکہ پولیس نے دو طالبعلموں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مکتوب میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داخل ہونے والوں میں افغانستان سے ہارون جبار، ترکمانستان سے آزاد اور سری لنکا سے ایک عیسائی طالب علم ماریو شامل ہیں، دیگر دو طالب علموں کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔
سائبر سیکورٹی کے ایک طالب علم احمد وارث سخا نے مکتوب کو بتایا، "کیونکہ یونیورسٹی کیمپس یا ہاسٹل کے احاطے میں کوئی مسجد نہیں ہے۔ یہ وہ عارضی حل تھا جو ہم نے اپنی نماز کو وقت پر ادا کرنے کا پایا۔ قصبے کی مسجد بہت دور ہے۔ تو ہم اپنے ہاسٹل گراؤنڈ میں جمع ہوتے ہیں۔ ہم ایشیائی اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے 12 مسلمان طالب علم ہیں۔” سخا نے کہا کہ جب وہ بین الاقوامی طلبہ کے لیے الاٹ کیے گئے ہاسٹل کے اے بلاک میں نماز تراویح ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے جئے شری رام کے نعرے سننا شروع کردیے۔
"ایک ہجوم، جن میں سے کچھ بھگوا اسکارف پہنے ہوئے تھے، آئے اور ہمیں دھکیلنا شروع کر دیا اور سوال پوچھے کہ ہمیں وہاں نماز پڑھنے کی اجازت کس نے دی اور وہ ہمیں ہاسٹل میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب تک ہم کچھ سمجھ پاتے، انہوں نے اپنے پاس موجود ہتھیاروں سے ہمیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ چاقو، پتھر اور کرکٹ کے بلے سے ہمارے بہت سے ساتھی طالب علم زخمی ہو گئے،‘‘ سخا نے کہا۔طالب علم نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر جیوتی سے رابطہ کرنے کے باوجود، جو غیر ملکی طلباء کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہیں، انہیں ان کی توقعات کے برعکس جواب ملا۔ ادھر گجرات کرائم برانچ نے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ 
جن کے نام ہی تیش میواڑ اور بھرت پٹیل بتائے گئے ہیں۔
گجرات پولیس کمیشن نے اس سلسلے میں سخت اور غیر جانبدار کاروائی کی یقین دہانی کرائی ہے اس معاملے پر ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے اس واقعے کی مذمت کی اور اسے "بڑے پیمانے پر بنیاد پرستی” قرار دیا۔
انہوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا "کیا شرم کی بات. جب آپ کی عقیدت اور مذہبی نعرے تب نکلتے ہیں جب مسلمان پرامن طریقے سے اپنے مذہب پر عمل کریں۔ جب تم مسلمانوں کو دیکھ کر بے ساختہ ناراض ہو جاؤ۔ بڑے پیمانے پر بنیاد پرستی نہیں تو یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ نریندر مودی اور امت شاہ کی ریاست ہے۔ کیا وہ ایک مضبوط پیغام بھیجنے کے لیے مداخلت کریں گے؟ میں اپنی سانس نہیں روک رہا ہوں۔  وزیرِ خارجہ گھریلو مسلم مخالف نفرت بھارت کی خیر سگالی کو تباہ کر رہی ہے،”
اُدھر  
وزارت خارجہ کی جانب سے اتوار کے دن کہا کہ حکومت گجرا احمدآباد کی ایک یونیورسٹی میں تشدد برپاکرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کررہی ہے جہاں دو بیرونی طلبہ زخمی ہوئے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیرجیسوال نے کہا کہ ایک زخمی بیرونی طالب علم دواخانہ سے ڈسچارج ہوچکا ہے۔ انہوں نے ایکس پر کہا کہ احمدآباد کی گجرات یونیورسٹی میں کل تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ ریاستی حکومت خاطیوں کے خلاف سخت کاروائی کررہی ہے۔ جھڑپ میں دو غیرملکی طلبہ زخمی ہوئے۔ ایک کو علاج کے بعد دواخانہ سے ڈسچارج کردیاگیا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر