از قلم: سید منظوم عاقب
9839631674
پچھلے کچھ دنوں سے ہندوستان کے کچھ میڈیا چینلز غزوہ ہند کے سلسلے میں زور و شور سے مباحثے چلا رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے ادارے نے ہندوستان کیخلاف جہاد کا فتوٰے جاری کردیا ہے، جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ دارالعلوم دیوبند وہ ادارہ ہے جس نے ہندوستان کی آزادی کیلئے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا اور جنگ آزادی مکمل ہونے کے بعد جب ملک آزاد ہوا تو اسکے علماء نے ملک کی سیاسی حکومت سے خود کو الگ کرکے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ لیا اور مسلم لیگ کے تمام تر کوششوں کے باوجود اسی ملک ہندوستان کو اپنا ملک مانا اور ہمیشہ ملک کی سالمیت اور تحفظ جمہوریت کیلئے کوشاں رہے۔ لیکن اس وقت حکومت کی ایماء پر ملک میں پنپ رہی منافرت اس قدر اندھی ہوچکی ہے کہ وہ اس ادارے کو بھی لگے ہاتھ نمٹانا چاہ رہی ہے اور کچھ ذرائع ابلاغ تو انگریزوں سے بھی آگے بڑھکر دارلعلوم دیوبند کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اور عوام کو دارلعلوم سے متنفر کرنے کیلئے طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا آج کل غزوہ ہند کے نام پر خوب شورشرابا مچاے ہوئے ہیں۔ اسکی دو وجوہات ہیں: اول تو یہ کہ اس دور کے اکثر لوگ علم سے کورے ہیں، انکو علم کا مطلب صرف حروف شناسی ہی سمجھ میں آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے جان بوجھ کر ایسے جذباتی اور حساس مدعوں کو ابلاغ میں لایا جاتا ہے، جس سے ہمیشہ بیفائدے کی بحث میں لوگ الجھے رہیں۔ اول تو کسی بھی نظم، نثر، شعر، کویتا، خبر، تقریر کو تب تک سمجھنا مشکل ہوتا ہے، جب تک کہ اس کا پس منظر معلوم نہ ہو، پس منظر جانے بغیر اگر کسی تحریر یا تقریر پر تبصرہ کیا جائیگا تو اسکو ہمیشہ غلط مطلب ہی ملے گا۔ فتوے کا مطلب اور حصول فتویٰ کا مقصد جانے بنا لوگ فتوٰی فتویٰ چلانا شروع کردیتے ہیں اور بات کچھ کا کچھ ہوجاتی ہے۔ جہاں تک غزوہ ہند کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں: ایک یہ کہ یہ غزوہ دور خلافت میں ہوچکا ہے اور جمہور علماء اور مورخین اسی قول کو مانتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کیکچھ علماء تقسیم ہند کے بعد پہلی کشمیر جنگ کے موقع پر پاکستانی عوام کو ورغلانے کیلئے غزوہ ہند کا اطلاق ہندوستان سے جنگ کے طور پر کرتے ہیں جبکہ غیر سیاسی پاکستانی علماء اسکی ہمیشہ تردید کرتے آئے ہیں۔ اب آتے ہیں حدیث پاک میں مذکور غزوہ ہند کی طرف، جس زمانے میں غزوہ ہند کی پیشنگوئی کی گئی اس زمانے میں ہندوستان نام کے کسی ملک کا وجود نہیں تھا اور اگر وجود تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس خطے میں آجکا افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش بھی آتا ہے، کیونکہ آجکا ہندوستان تو 15/ اگست 1947ء کے بعد وجود میں آیا ہے، لہٰذا یہاں سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ جس غزوہ ہند کا اطلاق موجودہ ہندوستان پر کیا جارہا ہے وہ سرے سے ہی بے بنیاد ہے۔ ہند لفظ کو سمجھنے کیلئے ہمکو عربی زبان وثقافت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور ہند لفظ عرب کے مکہ شہر کا معروف لفظ تھا اور یہی وجہ تھی کی ہندہ نام عربوں میں مستعمل تھا۔ یاد کرئے ہندہ وہ خاتون ہیں جس نے اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں کی دشمنی میں مقدم رہی اور حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ تک چبایا اور قبول اسلام کے بعد کی جنگوں میں مسلمانو کیطرف سے لڑائی میں شریک ہوتی رہیں۔ ہند مذکر ہے جبکہ ہندہ اسکا مؤنث ہے، ہند کا لفظ عرب معاشرے میں سخت، مظبوت، جفاکش، بہادر وغیرہ کے ضمن میں استعمال ہوتا تھا، لہٰذا غزوہ ہند بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی ایک ایسی جنگ جو بہت سخت ترین چیلینجیز سے بھی ہوئی اور ظاہر ہے جب جنگ سخت ترین ہوگی تو اسکے فضائل بھی بہت زیادہ ہونگے۔ لیکن وہ جنگ ہندوستان کیخلاف ہوگی اسکا کوئی ثبوت یا جواز نہیں ہے، لہٰذا غلط فہمیوں اور پرپیگنڈوں سے باہر نکلیں۔
0 Comments