Latest News

صدقۂ فطر کی ادائیگی کے وقت خیال رہے: عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی۔

 ماہ رمضان المبارک کے قیمتی لمحات تیزی سے گزررہے ہیں، اللہ جل جلالہ کی خاص رحمتوں سے ہم بہرہ ور ہورہے ہیں، مغفرت کی خوشگوار پھوار سےگناہ و معصیت کے بد نما داغ دُھل رہے ہیں، دوزخ سے چھٹکارے کی نوید مل رہی ہے ،ہر طرف ایک ایمان افروز منظر،روحانی عروج و ارتقاء کے ذرائع موجود ،سحری کی روح پرورگھڑیاں،افطار کی روح افزا ساعتیں،دن میں ذکر و اذکار اوررات میں تراویح و قیام لیل کا خصوصی اہتمام ، اللہ رب العزت کی جانب سے ہمیں حکم ہوا کہ رات کے اندھیرے میں اٹھ کر کھاؤ اور سحری کرو، تو ہم نے اس پر عمل کیا،دن بھر گرمی برداشت کرتے ہوئے کچھ بھی کھانا پینا نہیں ہے ، ہم نے اس پر عمل کیا،دنیا کی تمام مرغوبات سے کنارہ کشی اختیار کرو،ہم نے کرلی،لغویات سے ،جھوٹ سے،چغلی اور غیبت سے ، دوسروں کی ایذا رسانی سے ،گالی گلوچ سے ،فحش کلامی سے خود کو دور رکھنا ہے ،ہم نے مان لیا ، رات میں مزید نمازوں کا اہتمام کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام بھی کرنا ہے ، ہم نے ایسا ہی کیا، توفیق ملی تو مزید نمازوں کا اہتمام کرتے ہوئے تہجد کا بھی اہتمام کیا۔
آخری عشرہ میں اعتکاف ، شب قدر کی تلاش، اللہ کی رحمت اور مغفرت اور نار جہنم سے بچنے کے لیے جدوجہد،اپنے مال و دولت کو پاک و صاف کرنے کے لئے زکوٰة کا اہتمام، تمام تر نعمتوں اور مرغوبات کی فراوانی کے باوجود اپنی نفسانی خواہشات پر قابو، جھوٹ اور لغو باتوں سے پرہیز یہ تمام امورگویا ایک مہینہ تک ہمارے معمولاتِ زندگی بن گئے ہیں اور ایسا اس لئے ہوا کہ ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ ایسا کرنے کے لئے ،ایسا ماحول بنانے کے لئے ،تقوی اور پرہیز گاری کی زندگی گذارنے کے لئے ہمارے خالق و مالک اللہ رب العزت نے ہمیں حکم دیا ہے ،وہ کریم ذات ہم سے انھیں اعمال کا مطالبہ کرتی ہے ،اسی لئے ہم نے رمضان المبارک میںہر وہ کام کیا جس کا ہمارے کریم آقا نے حکم دیا اور ہر اس کام سے بچنے کی کوشش کی جس سے روکا ،تاکہ ہمارے اندر روزے کی روح ’’تقوی‘‘ پیدا ہوجائے،اور ہم پھر پورے سال اسی پرہیز گاری کے خوگر اور عادی بن کر قرب الٰہی حاصل کرتے رہیں،کہ یہی مقصود فطرت ہے ،رمضان المبارک کے ان اعمال سے گویا ہم سے گندگی دور کردی گئی، اب جب کہ ایک طرح سے ہماری روح پاک ہو چکی، اب جب کہ ایک طرح سے ہمارا نفس ہمارے قابو میں آچکا اور اب نیکیوں پر عمل آسان ہو چکا ہے ، ایسے میں روح کو پھر سے ناپاک بنا دینا، نفس مطمئنہ کو نفس امارہ میں تبدیل کر دینا اور نیکیوں کو برائیوں سے بدل لینا، کیا کوئی دانشمندی کی بات کہلائے گی؟نہیں کبھی نہیں۔
 رمضان کی مبارک ساعتوں میں احکام خداوندی کی پاس داری کا صلہ ملنے کا دن’’عید الفطر‘‘آئے گا ،انعامات خداوندی کی بارش ہوگی ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’رمضان‘‘ کی مغفرت اور ’’عید‘‘ کی خوشیاں عطاء فرمائے‘‘ تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنْکُم
’’عید ‘‘دنیا کی دوسری اقوام سے الگ ایک ممتاز خوشی کا دن ہے ،اس دن دنیا کی اور اقوام کی طرح صرف رنگینیٔ محفل کے لئے مسلمان مامور نہیں ہیں ،اُن کو رمضان المبارک کی محنت کا اجر جھولیاں بھر بھر کر دیا جاتا ہے، ان کی ہر دعاء قبول کی جاتی ہے، اُن کے مسائل حل کئے جاتے ہیں، یہ بڑا خاص موقع ہوتا ہے، مگر ہم میں سے اکثر کو اس کا احساس نہیں، اور بہت سوں کو اس کا علم نہیں، وہ اپنا بہت سا وقت اپنی بناوٹ سجاوٹ پر ضائع کرتے ہیں،اس دن تواللہ کے خصوصی فضل و انعام کی بارش ہوتی ہے ،خوشی و مسرت کے اس حسین موقع کو مذہب اور اطاعت خداوندی کے ساتھ ساتھ ایثار و ہمدردی اور انسانیت نوازی سے ایسا مربوط کردیا گیا ہے کہ اس کی ایک امتیازی شان اور منفرد حیثیت بن گئی ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کی صرف عبادت ہی کافی نہیں بلکہ مستحقین کا حق ان تک پہنچانا بھی ضروری ہے اور جو زندگی اور اپنے مال ودولت کو اپنا تصور کرتے ہیں اور روزہ رکھ کر یا نماز ادا کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بندگی کا حق ادا کردیا اُنہیں آگاہ ہوجاناچاہئے کہ عید دراصل اجتماعی خوشی کا دن ہے۔ اگر وہ ناداروں کو ان کا حق پہنچانے سے بچتے ہیں تو ان کی عبادت وریاضت ایک بے جان جسم کی طرح ہے اس لئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر ان لوگوں تک پہنچائے جو اس کے حاجتمند ہیں اور جن کی عید اس کے بغیرپُرمسرت نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے کہاجاتا ہے کہ عیدالفطر کا تہوار نئے کپڑے پہن لینے اور لذیذ کھانے کھالینے کا نام نہیں بلکہ اس جشنِ مسرت کی روح اجتماعیت اور غم گساری میں مضمر ہے۔
صدقۂ فطر کا وجوب اسی اسلامی تعلیم کا ایک حصہ ہے کہ آج کے دن کوئی بھی نانِ شبینہ کا محتاج نہ رہے ،اللہ رب العزت کی طرف سے مہمانی اور اکرام کا دن سب کے لئے برابر ہونا چاہئے ۔
 صدقۂ فطر کی ادائیگی کے پس پشت کارفرما مقاصد بہت ہیں، ان میں سے دو کا صریح تذکرہ احادیث میں ملتا ہے : 
۱- روزہ کے درمیان جو کوتاہیاں ، لغزشیں، بدکلامیاں اور لایعنی کام ہوگئے ہیں، یہ صدقۂ فطر ان کا کفارہ بن جائے . چنانچہ حدیث میں ہے :
۲- مساکین وفقراء کے خوراک کا انتظام ہوجائے۔
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:فرض زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين.(ابو داود ح ۱۶۰۶، ابن ماجہ ح ۱۸۷۲)
 ہر ایسے شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے، جو صاحب نصاب ہو یعنی :اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت موجود ہو ، اس پرمکمل سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے (عالمگیری )
باپ اپنی اولاد اور اپنے گھر کے خادم کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا( عالمگیری )بیوی اگر صاحب نصاب ہے، تو اپناصدقۃالفطر خود ادا کرے گی، جیساکہ وہ اپنی زکاة خو د ادا کرتی ہے ،ہاں اگر اس کی اجازت سے شوہر ادا کردے تو بھی کافی ہوجائے گا ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما انه قال :فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير من المسلمين. ( مشکاۃ باب فضائل صدقۃ الفطر ) 
اس کے مصارف بھی وہی لوگ ہیں جو زکات کے مصارف ہیں
کتبِ فقہ و فتاویٰ میں صدقۂ فطر کا معیار چار چیزوں کو بنایا گیا گیا ہے ،(۱) گیہوں(۲) جَو(۳) کشمش(۴)کھجور،گیہوں کا وزن نصف صاع یعنی ایک کلو چھ سو پینسٹھ گرام1.665 (ایک صدقۂ فطر کی مقدار)
جَو ،کھجور اور کشمش کا وزن ایک صاع یعنی سوا تین کلو3.250(ایک صدقۂ فطر کی مقدار)
وإنما تجب صدقۃ الفطر من اربعۃ أشیاء من الحنطۃ و الشعیر والتمر والزبیب کذا في خزانۃ المفتیین و شرح الطحاوي الخ (ہندیہ ۱؍۱۹۱)
عرب میں چونکہ گیہوں کمیاب اور گراں ہوتا تھا ،غالباً اسی لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نصف صاع کو دوسری چیزوں کے پورے صاع کےبرابر قرار دیا ہے ۔
قرآنی ہدایات اور ارشادتِ نبویہ کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے کہ صدقۂ فطر کی ادائیگی کے وقت ہم ان چاروں میں سے جو گراں ہو اور جس میں روپیہ زیادہ خرچ ہوتا ہو ،اس سے صدقۂ فطر ادا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب اور ثواب حاصل ہو اور جس کو دیا جارہا ہے اس کے فقر و فاقہ کا زیادہ سے زیادہ ازالہ اور خاتمہ ہوسکے جو کہ طعمۃ للمساکین کی رُو سے منشاءِ شریعت بھی ہے ۔
مگر نہ معلوم ہم نے ہندوستان میںکہاں سے صرف گیہوں کو ہی معیار بنا لیا ہے جو کہ مذکورہ چاروں چیزوں میں سب سے سستا اور کمتر ہے ،اکثر اہلِ علم مفتیان کرام بھی اسی کا وزن اور اسی کی قیمت لگاکر صدقۂ فطر کا اعلان کرتے ہیں ۔
اب حد یہ ہے کہ محتاج وفقراء تک پہنچنے والا صدقۂ فطر ایک کروڑپتی اور لکھ پتی کا بھی اتنا ہی ہوتا ہے، جتنا ان کے گھروں میں مزدوری کرنے والوں کا ہوتا ہے۔
یہ کام دارالافتاء اور مفتیانِ عظام، علمائے کرام، خطیبانِ جمعہ اور أئمۂ مساجد کا ہے کہ وہ ایک طرف دیگر منصوص علیہ اجناسِ فطر :کجھور، کشمش منقی اور جَـو کو دیکھیں اور دوسری طرف لوگوں کی مالی حیثیت کا تفاوت مدنظر رکھیں، پھر لوگوں کو ترغیب دیں کہ جس کے پاس جیسی وسعت ہو، اسی کے اعتبار سے سب اپنے اپنے صدقات فطر ادا کرنے کی کوشش کریں.
ان میں سے کسی کی حیثیت اگر کجھور سے ادا کرنے کی ہو تو گیہوں کے بالمقابل اس کا ایک فطرہ کسی غریب کے حق میں کتنا نفع بخش ثابت ہوگا،اسی طرح کوئی استطاعت رکھنے والا کشمش سے فطر ہ ادا کرنے کی کوشش کرے گا تو حاجت مندوں کے دلوں سے کیسی کیسی دعائیں پائے گا۔اور اس سے یقیناً وہ چہرے کھل اٹھیں گےجنھیں یہ دیا جائے گا،اور اس طرح غرباء پروری کی محمود صورت سامنے آئے گی۔

عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی۔

7895886868

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر