غزہ میں اسرائیلی درندگی اور بربریت کا ننگا ناچ بلاروک ٹوک جاری ہے۔ ہرروزمیڈیا میں اس کی دل دہلادینے والی خبریں شائع ہوتی ہیں، لیکن اب ہم ان خبروں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ان پر شاذ ونادر ہی نظر ڈالتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی چونکانے والی خبر منظر عام پر آتی ہے تو اس پر ضرور چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ایسی ہی ایک خبر گزشتہ 8جولائی کو جدہ سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’عرب نیوز‘ نے شائع کی جس میں بتایا گیا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ 86 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔یہ دلدوز خبر لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے ’لانسیٹ‘ کے حوالے سے شائع ہوئی ہے، جسے بعد کو بعض ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے بھی نقل کیا۔ یہ خبر اس لیے چونکانے والی تھی کہ اب تک فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے غزہ میں جاری بربریت کے نتیجے میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں، ان کی تعداد 38 ہزار کے آس پاس بتائی جارہی ہے اور اس میں ہرروز کچھ نہ کچھ اضافہ ہورہا ہے۔لیکن ’لانسیٹ‘ نے جو اعداد وشمار شائع کئے وہ واقعی تشویش ناک ہیں۔
’لانسیٹ‘ عالمی سطح پر ایک معتبر طبی جریدہ ہے اور اس کے اعداد وشمار کو کسی بھی طورجھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جریدے کا کہنا ہے کہ غزہ میں گزشتہ 9 ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں کی حقیقی تعداد ایک لاکھ86 ہزار سے زیادہ ہے۔’لانسٹ‘ نے نشاندہی کی ہے کہ”جنگ میں ہلاکتیں صرف وہ نہیں ہوتیں جو حملوں کی زد میں آکر براہ راست ہوتی ہیں بلکہ ان اموات کو بھی شمار کیا جانا چاہئے جو جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔“
دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل نے غزہ پر جو آگ برسانی شروع کی تھی اس کے نتیجے میں 23 لاکھ آبادی کی یہ محصور پٹی انسانی بے بسی اور لاچاری کا ایک ایسا مرکزبن گئی ہے جہاں زندہ رہنے کے تمام ذرائع ختم کردئیے گئے ہیں۔بنیادی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ اسپتالوں سے لے کر، پناہ گزین کیمپوں تک ہر جگہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یوں تو غزہ میں پہلے ہی لوگ انتہائی کس مپرسی کی زندگی بسر کررہے تھے، لیکن اسرائیل کی ننگی جارحیت کے نتیجے میں وہاں زندہ رہنے کے سارے اسباب ختم کردئیے گئے ہیں۔ وہاں غذاؤں اور دواؤں کا ہی بحران نہیں ہے بلکہ بودوباش کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں۔ غزہ ایک کھنڈر کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے اور وہاں زندہ رہنا سب سے مشکل کام ہے۔ بچوں کی ایک پوری نسل تباہ ہوچکی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے پیر 8جون 2024 تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 38ہزار 193 افراد کے جاں بحق اور10 ہزار سے زیادہ کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس کے مطابق حملوں میں تقریباً 88 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں، تاہم ’لانسیٹ‘ کی تحقیق کے مطابق اموات کی حقیقی تعدادکئی گنا زیادہ ہے، کیونکہ اس میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں ہیں، جو ملبے میں دب کررہ گئے ہیں، جو طبی سہولتوں کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے مرگئے یا جن کی موت غذا کی فراہمی متاثر ہونے یاعوامی ڈھانچے کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’لانسیٹ‘ کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے تنازعات میں تشدد کے اثر سے بالواسطہ اموات بھی بڑی تعداد میں ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ اگر فوری طورپر بند بھی ہوجائے تب بھی اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کا سلسلہ آنے والے کئی مہینوں اور برسوں تک جاری رہے گا، جو جنگ کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں، وسائل کی قلت اور دیگر وجوہات کا نتیجہ ہوں گی۔’لانسیٹ‘ نے غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”غزہ میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا ہے، جس کی بناپر اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ غذا کی قلت، پانی کی عدم دستیابی اور رہائش کی کمی کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے فنڈ میں کمی آرہی ہے جس کا براہ راست اثر جنگ سے متاثرہ عام شہریوں کی زندگیوں پر پڑے گا۔"
غزہ جنگ پر اپنی تحقیقی رپورٹ میں ’لانسیٹ‘ نے نشاندہی کی ہے کہ"حالیہ تنازعات میں دیکھاگیا ہے کہ حملوں کی وجہ سے براہ راست اموات کے مقابلے بالواسطہ اموات کی تعداد پندرہ گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘لانسیٹ نے غزہ کے معاملے میں صرف چار گنا بالواسطہ اموات کا تخمینہ لگایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر براہ راست موت کے ساتھ چار بالواسطہ اموات کے’قدامت پسندانہ تخمینہ‘ کو بنیاد بنائیں تب بھی یہ اندازہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ غزہ جنگ سے ایک لاکھ 86 ہزار یااس سے بھی زیادہ اموات ہوسکتی ہیں۔غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہونے سے پہلے وہاں کی آبادی 23 لاکھ تھی۔اس لحاظ سے ’لانسیٹ‘ کی تحقیق کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ کے آٹھ فیصد شہری جاں بحق ہوجائیں گے۔"
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غزہ کا بحران اتنا سنگین ہے کہ اسے پوری طری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔سب سے بڑا المیہ شفاخانوں کے آس پاس وقوع پذیر ہورہا ہے۔ بیشتر اسپتال تباہ کردئیے گئے ہیں۔ طبی کارکنوں اور ڈاکٹروں کی موت نے پورے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی کا بیا ن ہے کہ ”غزہ کے نظام صحت کی تباہی اور وہاں کے عوام نے جو شدید صدمے اٹھائے ہیں، وہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ امدادی کارکنوں کے لیے ان کو سمجھنا ہی کافی مشکل ہے۔“ حنان بلخی کا کہنا ہے کہ”ان کے لیے المناک کہانیوں کو سننا اور ان کے حوالے سے بات چیت کرنا مشکل ہے۔“امدادی ٹرکوں کے داخلے اور محدود رسائی کی وجہ سے غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کن بھوک اور قحط کا سامنا ہے۔غزہ کی 96 فیصد آبادی مستقل بنیادوں پر شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کررہی ہے اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی کے پاس اپنے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے جبکہ بیس فیصد افراد بغیر کچھ کھائے پئے دن اور راتیں گزار رہے ہیں۔
آخر میں غزہ کی بھیانک صورتحال پروہاں کے مشہور صحافی جاد حلس کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں، جو صورتحال کی سنگینی کو عیاں کرتی ہے۔
”خدا کی قسم!
اگر آپ اہلغزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تکالیف دیکھیں تو آپ دنگ رہ جائیں، ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کر پائے گا کہ آیا ایک انسان ان تمام مظالم اور تکالیف کو برداشت کر کے زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟ اور ان تکالیف کی شدت سے اس کی موت کیسے واقع نہیں ہوئی؟!!
خدا کی قسم!
اگر یہ تکالیف اور مشقتیں کسی چٹان پر گزرتیں تو وہ تکلیف کی شدت سے پھٹ جاتی، سمندر پر اتنا ظلم ڈھایا جاتا تو وہ بخارات بن جاتا، دیوہیکل پہاڑوں پر گر اتنا سِتم ڈھایا جاتا تو ان میں شگاف پڑ جاتے، لوہے جیسی مضبوط دھات تک اس تکلیف کی شدت سے پگھل جاتی!!
ہم نے جو آفتیں دیکھی ہیں اس کے مقابلے میں آپ کی پریشانیاں ہیچ ہیں، (باخدا یہ حقیقت ہے)،
ہم پر بیتنے والے دلسوز مناظر کے عادی نہ بنیں، اسے ہماری عادی زندگی / روٹین لائف نہ سمجھیں،
بلاشبہ ہمیں تنہا، بے یارو مددگار چھوڑنے والوں کو اللہ رب العزت دیکھ رہے ہیں، اور ان سب کو اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔“
نوٹ: مضمون نگار ملک کے ممتاز صحافی ہیں۔
0 Comments