کانپور: ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کسی ذی شعور کے لیے ممکن نہیں۔ شرک و الحاد، ارتداد اور باطل نظریات، جہالت اور بے دینی کی تاریکی میں مدارس اسلامیہ مسلم معاشرے کی دینی رہنمائی کے لیے ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں جو کچھ بھی دینی بیداری، دینی تعلیم،اور دینی ماحول نظر آ رہا ہے وہ انہی مدارس کا فیض ہے۔ ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء اترپردیش اور رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند مشرقی یوپی زون۔۱ کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے ذمہ داران مدارس کے نام جاری اپنے اخباری بیان میں کیا۔
مولانا نے کہا کہ اس وقت صوبہ اترپردیش کے غیر منظور شدہ/آزاد مدارس کے طلبہ کا سرکاری/منظور شدہ اسکولوں میں داخلہ کرائے جانے کے سلسلہ میں قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کے ایک سرکلر کی روشنی میں چیف سکریٹری حکومت اترپردیش کی ہدایت پر سرکاری حکام کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ وہ مدارس میں پہنچ کر ذمہ داران مدارس پر اس کے لئے دباؤ بنا رہے ہیں، جس سے اربابِ مدارس میں تشویش و بے چینی اور اضطراب کا ماحول قائم ہے۔ بعض علاقوں سے اربابِ مدارس نے از خود ہی اپنا مدرسہ بند کرنے کی تحریر افسران کو سونپ کر اپنے آئینی و دستوری حق سے خود سپردگی کر دی ہے۔ ان نظماء مدارس کا یہ طرز عمل اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس خوف و ہراس کا سبب بادی النظر میں ذمہ داران مدارس کا اپنے دستوری و قانونی حقوق سے عدم واقفیت ہی محسوس ہوتا ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ سبھی ارباب مدارس ان حقوق سے واقفیت حاصل کریں اور آنے والے افسران سے دو ٹوک انداز میں بے خوف ہوکر گفتگو فرمائیں۔ اپنی گفتگو سے ان کو یہ باور کرائیں کہ حکومت کا یہ سرکلر اور حکم نامہ غیر قانونی و غیر آئینی ہے جو ہمارے دستوری و آئینی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتائیں کہ ہمارے مدرسے دستور ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت قائم ہیں۔ ان کا مقصد عربی، فارسی اور اردو زبان کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر کا تحفظ و فروغ اور مسلمانوں میں اسلامی و شرعی علوم کی تعلیم ہے۔ حالات حاضرہ کی ضرورت اور طلبہ کی استعداد سازی کے پیش نظر بنیادی ہندی، انگریزی، ریاضی، جغرافیہ، جنرل سائنس اور ماحولیات وغیرہ مضامین بھی ہمارے نصاب میں شامل ہیں۔ ہمارا ادارہ مذہبی تعلیم گاہ ہونے کی وجہ سے (رائٹ ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2009) آر ٹی ای ایکٹ 2009 سے پارلیمنٹ کی ترمیم 2012 کے ذریعہ مستثنیٰ
exempted
ہے۔ ہمارے ادارہ کو حکومت سے منظوری لینے کی ضرورت اور پابندی نہیں ہے۔ ادارہ کا قیام رجسٹرڈ سوسائٹی کے ذریعہ کیاگیا ہے اور اس کا انتظام اور اہتمام بھی اسی رجسٹرڈ سوسائٹی کے تحت ہوتا ہے۔یہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ نمبر 21 سن 1860 کے تحت قائم اور رجسٹرڈ ہے۔ ہمارے یہاں طلبہ سے تعلیمی فیس نہیں لی جاتی بلکہ اقامتی مدرسہ ہونے کی صورت میں طلبہ کے قیام، طعام، علاج و معالجہ اور ان کی کتابوں و اسٹیشنری وغیرہ کا نظم بھی مدرسہ کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اپنی اس کوشش کے ذریعہ مدارس حکومت کے ''سرو شکچھا ابھیان'' کو بغیر کسی سرکاری مدد کے فروغ دے کر اس مہم کی کامیابی میں ایک اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ ان مدارس کے ذریعہ ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ مدارس کے فیض یافتگان ملک کے تمام تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے امتحانات میں شرکت کرکے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ فارغین مدارس کا ملک و ملت کے تئیں پہلی جنگ آزادی سے لے کر آزادی کے بعد ملک کی تعمیر نو اور ترقی میں نمایاں کردار ہے جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔
مولانا عبداللہ قاسمی نے مزید کہا کہ آنے والے افسران کو معلوم ہونا چاہئے کہ مدارس کے طلبہ کو بیسک/مانتا پراپت اسکولوں میں ٹرانسفر پر سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایس ایل پی نمبر7857 سی- سن 2024 انجم قادری بنام یونین آف انڈیا میں جاری اسٹے آرڈر مورخہ 4/ اپریل 2024 کے ذریعہ روک لگائی ہوئی ہے۔ اس مقدمہ میں این سی پی سی آر(نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس) بھی فریق(پارٹی) ہے۔ حکومت کا یہ سرکلر سپریم کورٹ کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک کنٹمپٹ پٹیشن بھی اس مقدمہ کے ایک فریق نے داخل کی ہے۔
مولانا نے کہا کہ مدارس کے لئے سرکاری منظوری(مانتا) حاصل کرنا لازمی نہیں ہے۔ مدارس کی مانتا اختیاری ہے لازمی نہیں ہے۔ اس لئے آپ کا طلبہ مدارس کو دیگر تعلیمی اداروں میں منتقل کرنے کا حکم غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر دستوری ہے۔ اقلیتوں کو ملک کے دستور و آئین کے ذریعہ حاصل شدہ حقوق میں بے جا مداخلت ہے۔
مولانا نے مدارس کے ذمہ داران کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد بھی اگر افسران چیف سکریٹری کے حکم نامہ کا حوالہ دے کر آپ کو خوفزدہ کرنے کے لئے پولیس کی مداخلت اور ایف آئی آر کرانے کی بات کریں تو ان سے کہیں کہ آپ ہم کو تحریری نوٹس دیں تاکہ ہم اپنی سوسائٹی کی میٹنگ میں اس پر غور کرکے فیصلہ لیں۔ نوٹس ملنے کے بعد ماہرین قانون/ وکلاء کے مشورہ سے ان کو تحریری جواب دیں کہ آپ کا نوٹس غیر قانونی اور غیر دستوری ہے۔
مولانا نے کہا کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو دوسرے اسکولوں میں منتقل کرنے کا اختیار کسی اتھارٹی کو نہیں ہے۔ یہ بچوں اور ان کے والدین کے دستوری حقوق میں مداخلت ہے۔ آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق میں دخل اندازی ہے۔ جس کا نوٹس دہندہ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکلر/حکم نامہ کو فی الفور واپس لیا جائے، بصورت دیگر ہم اپنے آئینی، دستوری اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لئے عدالت کی پناہ میں جانے کو مجبور ہونگے۔
جمعیۃ علماء کے ریاستی نائب صدر نے کہا جمعیۃ علماء ہند اول روز سے اس معاملے میں سرگرم ہے اور تمام قانونی چارہ جوئیوں کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی بھی طرح کی صورتحال میں ذمہ داران جمعیۃ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
سمیر چودھری۔
0 Comments