آگرہ: مسجد نہر والی کے خطیب محمد اقبال نے آج اپنے خطبہ جمعہ میں سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں میں سے ایک پر فوکس کیا، انھوں نے کہا ، کہ ہم بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں اور پھر ہم اپنے حریفوں کو برا کہنا شروع کردیتے ہیں، یہاں تک کہ ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے "بد دعاء“ کرنا شروع کردیتے ہیں ، یہ عمل گھروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اپنی ہی اولاد کے بارے میں بد دعاء کر رہے ہوتے ہیں، آج ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام اس کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے ، ہم سب نے طائف کا مشہور واقعہ تو سنا ہی ہے کہ طائف کے سفر میں کس طرح اللہ کے رسول کو پریشان کیا گیا، اتنا خون نکلا کہ جوتوں تک پہنچ گیا، پہاڑوں کے فرشتے نے آکر اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ بس آپ کے “حکم “ کی دیر ہے، اس طائف کی بستی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان دبا دوں ؟ تاریخی جملہ اللہ کے نبی کہا ، “مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراے گی ، “طائف والوں کے لیے بد دعاء نہیں کی ، اور قرآن میں جو اللہ نے کہا وہ تو آج آپ لکھ کر رکھ لیں،
ایک موقعہ ایسا آیا کہ رسول اللہ نے چار آدمیوں کے لیے بد دعاء کرنی شروع کی ، یعنی ان کی برائی اتنی زیادہ تھی کہ رسول اللہ ان کے لیے باقاعدہ فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھنے کے بعد ان چاروں کا نام لے کے لعنت فرمائی ، لیکن مسلمانوں سن لو اور یاد رکھو ، کہ اللہ نے اپنے پیارے رسول کو اس کام سے روک دیا ، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آگئے ، سورہ آل عمران آیت نمبر 128 میں اللہ نے کہہ دیا “ تم کو اختیار نہیں ، اللہ یا ان کو توبہ کی توفیق دے یا ان کو عذاب دے ، کیوں کہ وہ ظالم ہیں “ آپ سوچیں کہ اللہ بھی خود ان کو ظالم کہہ رہا ہے لیکن اس کے باوجود نبی کو روکا جا رہا ہے ، یہ ہمارے لئے بہت بڑا پیغام ہے ، ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے ؟ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ ہمیں سوچنا چاہیے ، اللہ کا کام , اللہ کو ہی کرنے دیں،
ہم کو کسی حالات میں “ صبر “ کو نہیں چھوڑنا ، اے اللہ ہم کمزور ہیں ، ہم میں طاقت نہیں کہ ہم مقابلہ کرسکیں ، ہماری طرف سے تو ہی کافی ہے ، مسلمانوں کی جان ، مال ، اور ایمان کی حفاظت فر ما، آمین ۔
0 Comments