Latest News

سنبھل جیسے سانحات روکنے کے لیے سپریم کورٹ پہونچی جمعیۃ علماء ہند، سنبھل لاقانونیت، ناانصافی اورظلم وبربریت کی ایک زندہ تصویر، ملک میں برسوں سے پھیلائی جانے والی نفرت اب گولیوں تک آگئی ہے: مولانا ارشد مدنی۔

نئی دہلی:  عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حقیقی پاسداری نا ہونے کی وجہ سے سنبھل جیسے واقعات ہندوستان میں رو نما ہورہے ہیں جس پر روک لگانا ضروری ہے۔پلیس آف ورشپ قانون 1991 ہوتے ہوئے بھی مسلم عبادت گاہوں کے سروے کرنے کا حکم نچلی عدالتیں جاری کررہی ہی جو اس قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حفاظت اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر گذشتہ ایک سال سے سماعت نہیں ہوسکی ہے، سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا ڈاکٹر ڈی وائی چندر چوڑ نے اس اہم مقدمہ پر سماعت کرنے کی بجائے مرکزی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے کئی مرتبہ مہلت دی تھی جس کے نتیجے میں اس مقدمہ کی سماعت نہیں ہوسکی لیکن اب سنبھل واقعہ رونما ہونے کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے اس اہم مقدمہ پر جلداز جلد سماعت کئے جانے کی گذارش کی ہے ۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کو ایک خط تحریر کرکے اس اہم مقدمہ کو چیف جسٹس آف انڈیاکے روبرو پیش کرنے کی گذارش کی ہے ۔صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سنبھل میں پولیس فائرنگ اور ظلم کا شکار ہوئے لوگوں کے ساتھ اِس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃ علماء ہندشانہ بشانہ کھڑی ہے۔ سنبھل میں پولیس فائرنگ کی سخت مذمت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پولیس کی ظلم وبربریت کی ایک لمبی داستان ہے، خواہ ملیانہ ہو یا ہاشم پورہ، مرادآباد ، ہلدوانی ہو یاسنبھل، ہر جگہ پولیس کا ایک ہی چہرہ نظرآتا ہے، حالانکہ پولیس کا کام امن وامان قائم رکھنا اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کرنا ہے۔ لیکن افسوس کی پولیس امن کا داعی بننے کے بجائے اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق کی طرح معاملہ کرتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف کے دوہرے پیمانے سے ہی بدامنی اور تباہی کے راستے کھلتے ہیں۔ اِس لیے قانون کا پیمانہ سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہیے ، مذہب کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کی اجازت ناتو ملک کا آئین دیتا ہے نہ ہی قانون۔ مولانامدنی نے کہا کہ سنبھل سانحہ لاقانونیت، ناانصافی اورظلم وبربریت کی ایک زندہ تصویرہے جسے ملک ہی نہیں پوری دنیاکے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، یہ سانحہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یک رخی اورنظریاتی سیاست ملک کوکہالیکر آگئی ہے، قانون کے محافظ قاتل بن گئے ہیں برسوں سے پھیلائی گئی نفرت اب بندوق کی گولیوں تک آگئی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ سنبھل میں کس طرح نشانہ باندھ کر بلااشتعال سینہ پر گولیاں چلائی گئی ہیں اس کے متعددویڈیووائرل ہوچکے ہیں، مگر اب ایک بڑی سازش کے تحت انتظامیہ یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ جو لوگ مارے گئے پولس نہیں کسی اورکی گولی سے مارئے گئے ہیں، چنانچہ ایک بڑاسوال تویہی ہے کہ کیا پولس اپنی بندوقوں سے فائرنگ نہیں پھول برسارہی تھی، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی باشعورشخص اس تھیوری کو قبول نہیں کرسکتاپوری سچائی کیمروں میں قیدہے، مولانا مدنی نے کہا کہ وفدکو مقامی لوگوں نے بتایاہے کہ گولیاں پرائیویٹ اسلحوں سے چلائی گئی تاکہ پولس کو بچایاجاسکے، اس کا مطلب ہے کہ مسلم نوجوانوں کو مارنے کے لئے پولس نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے اوراس کے لئے وہ دھڑلے سے ناجائزاسلحوں کا استعمال کرنے لگی، مولانا مدنی نے کہا کہ ایک سنبھل ہی نہیں ملک کے دوسرے کئی مقامات پر ہماری عبادت گاہوں کو لیکر جس طرح تنازعات کھڑے کئے جارہے ہیں اورمقامی عدلیہ ان معاملوں میں جس طرح غیر ذمہ دارانہ فیصلے کررہی ہے وہ 1991میں لائے گئے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کی خلاف ورزی توہے ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی بھی توہین ہے جو اس نے بابری مسجدتنازعہ پر دیاہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ اس معاملہ کو دوسری عبادت گاہوں کے لئے نظیرنہیں بنایاجائے گا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ صادرکیا تھا اوریہ تسلیم کیا تھا کہ ایودھیامیں مندرتوڑکر کوئی مسجد تعمیرنہیں کی گئی جس کو مسلمانوں نے کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا اور یہ سمجھا کہ اب ملک میں امن وامان قائم ہوجائے گا۔لیکن اس فیصلے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔اب اگراس فیصلہ کے بعد بھی جگہ جگہ مسجدوں کی بنیادمیں مندرتلاش کئے جارہے ہیں تو اس کامطلب یہی ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں ملک میں امن واتحادکی دشمن ہے، اس طرح کی حرکتوں سے وہ ملک کی آئین وقانون کی دھجیاں حکومت کے زیر سایہ اڑارہی ہیں، اورحکومت خاموش ہے بلکہ درپردہ ایسے لوگوں کی حمایت کرتی نظرآتی ہے جس کا تازہ ثبوت سنبھل کا یہ سانحہ ہے ۔قابل ذکرہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے رجسٹرار کو ارسال کیئے گئے خط میں تحریر ہے کہ متذکرہ مقدمہ کی سماعت نہ ہونے سے ملک میں سنبھل جیسے واقعات ہورہے ہیں، سنبھل میں مسجد کا سروے کرانے کے حکم کے خلاف مقامی لوگوں نے احتجاج کیا جس کے بعد پولس فائرنگ میں پانچ لوگوں کی موت ہوگئی ۔خط میں مزید تحریر ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس جاری ہونے کے باوجود ابتک مرکزی حکومت نے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوسکی لیکن حالات کی سنگینی کے مدنظر اس اہم مقدمہ کی جلداز جلد سماعت ہونا وقت کا تقاضہ ہے۔2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے ، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020ہے ۔ سادھوؤں کی تنظیم کی جانب سے بھی اس قانون کو ختم کرنے کی درخواست داخل کی گئی ہے ۔ عدالت تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کررہی ہے۔متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کے ذریعہ مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی تھی اسی کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء ہند نے ایک پٹیشن بھی داخل کرکے عدالت سے گذارش کی ہے کہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے موثر نفاذ کے لئے فوری اقدامات کرے تاکہ مسلم عبادت گاہوں کے خلاف جاری بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کا نمبر 782/2022(سول رٹ پٹیشن) ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس قانون کے موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان عبادگاہوں کو فضول تنازعات کا شکار بنایا جارہا ہے اور ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے پریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔رٹ پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہے کہ نہ صرف مقدمات قائم کئے جارہے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں نے مختلف مقامات پر اسٹیٹس کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ قانون کی ایکٹ شکنی ہے ، اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو رکنا ضروری ہے۔قابل ذکر ہے کہ مولانا اشہد رشیدی صدر جمعیۃ علماء یوپی کے حکم پر یوپی جمعیۃ کا ایک وفد ۱۰؍ افراد پر مشتمل مولانا عبدالجلیل قاسمی اور مولانا سید کعب رشیدی کی سربراہی میں سنبھل پہنچا۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ پورا شہر خوف وہراس میں ہے، سڑکوں پر سناٹا ہے، تمام دکانیں اور کاروبار بند ہیں، خوف کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، حالات نہایت تشویشناک ہیں۔ وفد نے یہ بھی کہاکہ شہداء کے ورثاء اور جامع مسجد کے اطراف وجوانب میں رہ رہے لوگوں سے ملاقات کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پولیس کا رویہ عام مسلمانوں کے ساتھ بھی انتہائی جارحانہ اور جابرانہ تھا، وہ پورے ماحول میں دہشت پیدا کر رہے تھے اور لوگوں کو مغلظات گالیاں دے رہے تھے، لیکن مسلمانوں نے پھر بھی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی طرح کے اشتعال انگیزی کا جواب نہیں دیا۔جمعیۃ کے وفد نے تین شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعزیتی کلمات کہے، اظہار ہمدردی کی اور ان کو ہر طرح کی تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی ۔ جن کے نام یہ ہیں: (۱) محمد رومان مرحوم ولد چھوٹے خان محلہ حیات نگر (۲) محمد بلال مرحوم ولد محمد حنیف محلہ باغیچہ سرائے ترین (۳) محمد نعیم مرحوم محلہ کوٹ غربی ۔ مجموعی طور پر شہداء کی تعداد چھ ہوچکی ہے۔ اور کچھ کی حالت انتہائی نازک ہے۔جمعیۃ علماء کا وفد لوگوں سے گفتگو اور ملاقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ سنبھل شاہی جامع مسجد کا واقعہ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے خلاف مکمل سازش کا حصہ ہے، جس کی ہائی کورٹ کی نگرانی میں ایک جوڈیشیل انکوائری ہونی چاہئے اور اس میں ملوث سرکاری اور غیر سرکاری افراد کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دلائی جائے۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر