نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نےملک میں مسجد و مندر کا فتنہ کھڑا کرنےوالوں کی سازش پر روک لگانے کے لئے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو آج ایک اہم مکتوب ارسال کیا ہے جس میں گزارش کی گئی ہے کہ امن و امان اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ فوری مداخلت کریں ۔مولانا مدنی نے زور دے کر کہا کہ سروے کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں عوامی اعتماد کو مجروح کر رہی ہیںاور بدامنی ، سماجی تفریق اور بے چینی کی باعث بن رہی ہیں۔ تازہ مثال یوپی کے سنبھل میں پیش آمدہ سانحہ ہے جس میں پولس کے ذریعہ ہم وطنوں کا بے رحمی سے قتل کیا جانا بھی شامل ہے۔
مولانا مدنی نے چیف جسٹس آف انڈیا کو متوجہ کیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی قانون (پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991) فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے اور عبادت گاہوں پر پیدا کردہ تنازعات کو پر قد غن لگانے کے لیے بنایا گیا تھا تا کہ بابری مسجد جیسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو ۔تاہم حالیہ پیش رفت خاص طور پر سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ سروے اس قانون کے تحت ممنوع نہیں ہے، اس نے پھر فرقہ پرستوں کے لیے راہیں کھول دی ہیں ۔وہ اس کا فائدہ اٹھا کر الگ الگ مسجدوں پر سروے کی عرضیاں لگا کر ملک بھر میں فرقہ واریت کا زہر گھول رہے ہیں۔یہ روش ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کررہی ہے اور اس کے سیکولرڈھانچے کو نقصان پہنچارہی ہے۔
خط میں مولانا مدنی نے چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی وبا کا از خود نوٹس لیں اور فیصلہ کن اقدام کے ذریعہ حالات کی سنگینی کا تدارک کریں ۔ عدالت عظمی ٰ ہمیشہ آئین کی محافظ کے طور پر کھڑی رہی ہے ، وہ ملک کی سالمیت اور اس کے تانے بانے کو جوڑنے کے لیے آہنی دیوار ہے ۔ موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ بحیثیت چیف جسٹس آپ اس فریضے کو انجام دیں اور ملک کے ایک مضبوط ستون کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں ۔ آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ فوری مداخلت کر کے یہ یقینی بنائیں کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے اور 1991 کے ایکٹ کے مقاصد کا احترام کیا جائے۔ اس موقع پر عدالتی اقدام فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک اہم حفاظتی تدبیر ثابت ہو گا اور عدلیہ کے نظام انصاف پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا۔
صدر جمعیت علماء ہند مولانا محمود مدنی کا خط لے کر جمعیت کا وفد چیف جسٹس آف انڈیا کا دفتر پہنچا۔
نئی دہلی: صدر جمعیت علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ملک میں مسجد و مندر تنازع کے بڑھتے ہوئے واقعات پر روک اور سنبھل میں حالیہ قتل عام پر کارروائی کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھا ہے.
یہ خط لے کر جمعیت علماء ہند کا ایک وفد آج دیر شام موتی لال نہرو مارگ، نئی دہلی میں واقع چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کھنہ کی رہائش گاہ پہنچا۔ وفد نے یہ خط چیف جسٹس کے دفتر کو پیش کرتے ہوئے اس معاملے میں جلد از جلد کارروائی کی مانگ کی ہے.
جمعیت علماء ہند کے وفد نے چیف جسٹس کے دفتر کے ذمہ داروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محمود اسعد مدنی جو ملک کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت جمعیت علماء ہند کے صدر ہیں اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں، وہ مسجد و مندر تازع ملک میں فرقہ پرستوں کے اشتعال انگیز بیانات، میڈیا کے متعصبانہ رویے، اور امن و اتحاد کو خطرے میں ڈالنے والے حالات کو ملکی سالمیت کے لیے نہایت سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔
مولانا مدنی سنبھل کے حالات سے بہت غمزدہ ہیں. چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس آف انڈیا از خود ان حالات کا نوٹس لیں. جمعیت آئین کے محافظ چیف جسٹس آف انڈیا کے پاس آئی ہے اور امید کرتی ہے کہ وہ انصاف کے علمبردار کے طور پر اس درخواست پر فوری غور کریں گے۔
وفد میں سپریم کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ محمد نور اللہ، جمعیت علماء ہند کے سینئر آرگنائزر مولانا غیور احمد قاسمی، اور سینئر آرگنائزر مولانا شفیق احمد القاسمی شامل تھے۔
سمیر چودھری۔
0 Comments