معروف بزرگ عالم دین، استاذ الاساتذہ اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ثانی حضرت علامہ قمر الدین گورکھپوری کا آج اتوار کی صبح فجر کے وقت طویل علالت کے باعث اپنی رہائش گاہ پر انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم تقریباً 86 برس کے تھے اور آپ کے علم و کمال کا سلسلہ نصف صدی سے زائد رہا ہے۔ نصف صدی سے زائد تک مرحوم نے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور فی الوقت شیخ الحدیث ثانی تھے، دارالعلوم سمیت دنیا بھر میں آپ کے لاکھوں تلامذہ خدمت دین انجام دے رہے ہیں۔ تفصیل کے مطابق علامہ مرحوم کئی ماہ سے سخت علیل تھے، متعدد ماہر ڈاکٹروں کے یہاں اور بڑے اسپتالوں میں علاج ہوا مگر قابل ذکر افاقہ نہیں ہوا، دو روز قبل میرٹھ کے ڈاکٹروں نے گھر پر ہی دیکھ بھال کرنے کی صلاح دیتے ہوئے چھٹی دے دی تھی۔
حضرت علامہ کے انتقال کی خبر سے دیوبند کے علمی حلقوں کی فضا مغموم ہو گئی، ذمہ داران دار العلوم دیوبند سمیت سرکردہ علماء نے رہائش گاہ پر پہنچ کر تعزیت مسنونہ پیش کی۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے مرحوم کے انتقال پر گہرا رنج و الم ظاہر کرتے ہوئے حضرت علامہ کے انتقال کو عظیم علمی خسارہ قرار دیا اور کہا کہ حضرت علامہ کے انتقال سے علم کا ایک باب بند ہو گیا ہے۔ مرحوم کی دینی علمی تدریسی اور اصلاحی خدمات آب زر سے لکھنے لائق ہیں۔ علامہ مرحوم لاولد تھے۔ نماز جنازہ بعد نماز ظہر دو بجے احاطہ مولسری میں صدر جمعیت و صدر المدرسین مولانا سید ارشد مدنی نے ادا کرائی۔ بعد ازیں ہزاروں غمگین آنکھوں کے درمیان قاسمی قبرستان میں بزرگوں کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ دیوبند کے علماء سمیت کثیر تعداد میں اطراف کے علماء ارباب مدارس طلبہ اور عوام نے شرکت کی۔ مرحوم دار العلوم دیوبند کے ان پرانے چراغوں میں سے تھے جن کی ضیاء پاشیوں اور علمی کرنوں سے پوری دنیا بلا واسطہ اور بالواسطہ روشنی حاصل کر رہی تھی، آپ شیخ الاسلام حضرت مدنی، حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا فخرالحسن مراد آبادی جیسی جلیل القدر ہستیوں کے شاگرد رشید رہے ہیں۔ نہایت ہی کم گو مخلص، سادگی پسند اور حلیم المزاج شخصیت کے مالک تھے۔
واضح رہے کہ مرحوم کا شمار دارالعلوم دیوبند مقبول ترین اساتذہ میں ہوتا تھا، طلبہ سے بے پناہ محبت اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ کے انتقال سے دارالعلوم کی فضا مغموم ہے اور طلبہ واساتذہ کی آنکھیں اشک بار ہیں، علامہ کے انتقال پر دارالعلوم کی جانب سے آخری دو گھنٹوں کی تعطیل کا اعلان کر کے دارالحدیث میں اجتماع دعائے ایصال ثواب کا اہتمام کیا۔ صدر جمیعت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے حضرت علامہ کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کو نہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ تمام علمی حلقوں کا بڑا خسارہ قرار دیا اور کہا کہ علامہ کی علمی دینی تدریسی اور اصلاحی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، اللہ تعالی جملہ پسماندگان کو صبر جمیل دے اور امت مسلمہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔
جامع مسجد امروہہ کے شیخ الحدیث اور معروف عالم دین مفتی سید عفان منصورپوری نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حضرت الاستاذ علامہ قمرالدین گورکھپوری دارالعلوم دیوبند کے ان قدیم ترین اساتذہ میں سے تھے جن کے فیضان علمی سے ایک دنیا سیراب ھوئی، آپ بالغ نظر عالم دین ھونے کے ساتھ صلاح و تقوی، پارسائی اور سادگی کے مرقع تھے، طلبہ کے ساتھ شفقت و ھمدردی اور نرم مزاجی کا وصف آپ میں نمایاں تھا، انداز تدریس اور اسلوب بیان دلنشیں تھا۔ احیاء سنت اور اصلاح خلق کا جذبہ آپ کو اپنے شیخ سے وراثت میں ملا تھا جس کے لئے آپ ھردم کوشاں و متحرک رھا کرتے تھے، آپ کی رحلت سے ھم جیسے طلبہ عہد رفتہ کی یادگار ایک مثالی شخصیت سے محروم ھوگئے، باری تعالٰی حضرت الاستاذ کی مغفرت تامہ فرمائیں، خدمات جلیلہ کا بہترین بدلہ مرحمت فرمائیں، دارالعلوم دیوبند کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائیں اور جملہ پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل سے نوازیں۔
علاوہ ازیں نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نائب مہتمم مفتی راشد اعظمی، مفتی سید سلمان منصور پوری، مولانا سلمان بجنوری نقشبندی، مفتی اشرف عباس، مولانا توقیر قاسمی کاندھلوی، مولانا شاہ عالم گورکھپوری، دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی، جامعۃ الشیخ کے مہتمم مولانا مزمل علی قاسمی، مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی گورکھپوری، مفتی ساجد کھجناوری، نبیرہ شیخ الہند حاجی ریاض محمود، منیجر مسلم فنڈ سہیل صدیقی، سیکریٹری عیدگاہ محمد انس صدیقی، معروف شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی، مولانا ابراہیم قاسمی، مولانا شمشیر القاسمی، مولانا طیب عماد پوری سمیت دارالعلوم وقف دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور سمیت دیگر علماء اکابرین نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا۔
سمیر چودھری۔
0 Comments