اس دنیا میں یوں تو انسانوں کی ایک خاصی بھیڑ جمع ہے، لیکن اصل انسان جسکا دل و دماغ قرآن و حدیث کی روشنی سے منور ہو کر انسانی دنیا کے لئے نور ِ ہدایت کی کرنیں بکھیر رہا ہو سو میں ایک ملتا ہے، بلکہ اس دور ِ پر فتن میں یوں کہ لیجئے کہ لاکھوں میں ایک ملتا ہے،
جسکا وجود محض اپنا وجود نہیں ہوتا ، بلکہ ہزاروں لوگوں کی روحیں اسی کو سامان ِ سکون سمجھتی ہیں،
پھر اسکے یوں اچانک چلے جانے سے یہ روحیں اپنے کو یتیم سا محسوس کرتی ہیں،
آج کا دن مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے لئے فراقِ شیخ میں روح کے یتیم ہونے کا دن ہے، جنکے ایک دیدار سے ہی روح کو تازگی ملتی تھی، بجھی طبیعت ہری ہوجاتی تھی، محض جنکے یہ کہنے سے کہ "دعاء کرتا ہوں" سارے مصائب و آلام فوری طور پر ٹلتے دکھائی دیتے تھے، انکا شفقت بھرا انداز ِ گفتگو ہی ہمارے لئے ایک بڑا سرمایہ تھا،
آج حضرت کے یہ سارے انداز ہمیں اس وقت یاد آرہے ہیں جبکہ ہم انہیں یہ تک نہیں کہ سکتے کہ حضرت دعاء کرنا۔
وہ اللہ کے اتنے مقرب بندے تھے کہ بہت سی مرتبہ اس طالب علم نے حضرت کی دعاؤں کو فوری طور پر قبول ہوتے دیکھا ہے، اکثر امتحان کے زمانہ میں جب ہم کسی مشکل کتاب کے امتحان کے متعلق دعاء کی درخواست کرتے تو حضرت فرماتے "میں دعاء کرتا ہوں، اللہ آسان فرمائینگے! " بس حضرت کے اس دعائیہ جملہ میں اس قدر اثر ہوتا کہ اس مشکل ترین کتاب کا امتحان دیگر کتابوں کے مقابلہ میں آسان لگتا ۔۔
بعد ِ عصر حضرت والا کی مجلس ہمارے لئے دن بھر کے انتظار کرلینے کے بعدمیسرآتی تھی، ہمیں اس مجلس سے ایسی روحانیت ملتی تھی کہ پھر دنیا کے کوچوں میں کہیں بھی ہمیں یہ روحانیت نصیب نا ہوتی ، دوران ِ مجلس حضرت والا ؒ موجود طلبہ سے مشفقانہ انداز میں گفتگو فرماتے اور بسا اوقات زمانۂ طالب علمی کے قصے بھی بڑا لطف لیکر سناتے ،
حضرت والاؒ کو تصوف پر مبنی منظوم کلام بہت پسند تھا، ایک طالب علم جو اکثر حاضر مجلس ہوتاان سے صوفی عبد الرب صاحب ؒ کے منظوم کلام کو بہت محظوظ ہوکر سنتے،،
آخرش ! اب محض حضرتؒ کے مخصوص اور مشفقانہ انداز ِتربیت کی یاد باقی رہ گئی ہے۔۔۔۔
خدایا ۔ حضرت والا ؒ کی بال بال مغفرت فرما، دارالعلوم میں انکی خدمات کو قبول فرما، اور ہم خدام کو بھی حضرت کے فکر و منہج پر چلا۔۔۔۔آمین۔
0 Comments