نئی دہلی ۔۱۳؍ فروری: وقف (ترمیمی) بل 2024 پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی رپورٹ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کیے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ جے پی سی رپورٹ سے ان کے اعتراضات اور اختلافی نوٹس حذف کر دیے گئے ہیں، جس پر ایوان میں زبردست ہنگامہ ہوا۔راجیہ سبھا میں بی جے پی رکن میدھا کلکرنی اور لوک سبھا میں جے پی سی کے چیئرمین و بی جے پی رکن پارلیمنٹ جگدنبیکا پال نے رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ جیسے ہی رپورٹ پیش کی گئی، کانگریس، ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی، بائیں بازو کی جماعتوں سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کرتے ہوئے نشست کے قریب پہنچ گئے۔اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے جے پی سی رپورٹ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا:یہ جے پی سی رپورٹ جعلی ہے۔ اس میں اپوزیشن کے اختلافی نوٹس کو حذف کر دیا گیا ہے، جو جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر رپورٹ میں اپوزیشن کے اعتراضات شامل نہیں کیے گئے، تو اسے دوبارہ جے پی سی کے پاس بھیجا جائے۔ ہم ایسی رپورٹ کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔کھڑگے نے مزید کہا کہ یہ وقف املاک پر حکومت کا غیر آئینی قبضہ ہے اور اس سے مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کی راہ ہموار ہوگی۔کانگریس رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر سید ناصر حسین، جو جے پی سی کے رکن بھی ہیں، نے کہا یہ رپورٹ مکمل طور پر یکطرفہ ہے۔ جن اہم امور پر بحث ہونی چاہیے تھی، انہیں نظرانداز کر دیا گیا۔ کئی ضروری فریقین کو بلایا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جب ہم نے اختلافی نوٹ جمع کیے، تو ان میں سے ضروری نکات کو حذف کر دیا گیا۔ ناصر حسین نے اپوزیشن کے واک آؤٹ کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی متنازعہ اور غیر شفاف رپورٹ کو ایوان میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ نے حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا:آج حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنے کے لیے بل لا رہی ہے، کل وہ گرودوارہ، چرچ اور مندروں کی زمین پر بھی قابض ہونے کے لیے بل لائے گی۔ یہ جے پی سی رپورٹ مکمل طور پر دھاندلی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہے۔ ہنگامے کے درمیان وزیر داخلہ امیت شاہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا:اپوزیشن کے چند اراکین نے اعتراض کیا کہ ان کی آراء رپورٹ میں شامل نہیں کی گئیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ پارلیمانی قواعد کے مطابق کچھ شامل کرانا چاہتے ہیں، تو انہیں اس کا مکمل حق حاصل ہے۔ ہماری پارٹی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ امیت شاہ نے مزید کہا کہ یہ جے پی سی رپورٹ قواعد کے مطابق تیار کی گئی ہے اور اپوزیشن غیر ضروری تنازع کھڑا کر رہی ہے۔پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے اپوزیشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا:وقف بل پر جے پی سی نے گزشتہ چھ ماہ میں بہترین کام کیا ہے۔ اپوزیشن اراکین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ان کے اعتراضات کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اگر جے پی سی چیئرمین کو کوئی نکتہ غیر ضروری لگے، تو اسے ہٹانے کا اختیار انہیں حاصل ہے۔ رجیجو نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ تمام پارٹیوں کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے، یہ صرف این ڈی اے کی رپورٹ نہیں ہے۔بتادیں کہ جیسے ہی راجیہ سبھا میں جے پی سی رپورٹ پیش کی گئی، اپوزیشن نے زبردست ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ اسپیکر جگدیپ دھنکھڑ نے احتجاج کرنے والے اراکین کو انتباہ دیتے ہوئے کہا:یہ ہندوستان کی پہلی قبائلی خاتون صدر کا پیغام ہے، اور اس پیغام کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت نہ دینا ان کی توہین کے مترادف ہوگا۔ اسپیکر کی وارننگ کے باوجود اپوزیشن کا احتجاج جاری رہا، جس پر ایوان کی کارروائی 11:09 بجے سے 11:20 بجے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔جے پی سی رپورٹ کو 30 جنوری 2025 کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو پیش کیا گیا تھا۔ رپورٹ 655 صفحات پر مشتمل ہے اور کثرت رائے سے منظور کی گئی۔رپورٹ میں بی جے پی اراکین پارلیمنٹ کی تمام تجاویز شامل کی گئی ہیں، جبکہ اپوزیشن کے تمام ترمیمی نکات مسترد کر دیے گئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ یہ ترمیمی بل وقف بورڈ کو کمزور کرنے اور اقلیتی املاک پر حکومتی قبضے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔جے پی سی رپورٹ لوک سبھا میں پیش کیے جانے پر بھی زبردست ہنگامہ ہوا، جس کے بعد اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ اپوزیشن نے حکومت پر الزام لگایا کہ یہ رپورٹ آئینی اصولوں کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کی کوشش ہے۔وقف ترمیمی بل 2024 پر جے پی سی رپورٹ شدید تنازع کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک طرف حکومت اسے شفاف اور ضروری اصلاحات قرار دے رہی ہے، جبکہ دوسری طرف اپوزیشن اسے اقلیتی حقوق پر حملہ قرار دے رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس رپورٹ پر عمل درآمد کیسے کرتی ہے اور آیا اپوزیشن اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے یا نہیں۔
0 Comments