آگرہ: مسجد نہر والی سکندرا کے خطیب محمد اقبال نے اپنے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو آگاہ کیا کہ اپنی اولاد کی خاطر خود کو جہنمی نہ بناؤ۔ انھوں نے پہلے ایک حدیث بیان کی ابن ماجہ حدیث نمبر
3966
“ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے میں اپنی آخرت کو کھو دے “ آج لوگوں کی اکثریت اپنی اولاد کے لیے رات دن محنت کرتی ہے اور بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے میں اس قدر مشغول ہے کہ اس کو اپنی آخرت بنانے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ، جب کہ وہ اس بات کو بھول گیا “ کہ اس کی اولاد اُس کے لیے امتحان کا پرچہ ہے “ سورہ انفال آیت نمبر
28
اولاد اس کو اس لیے نہیں ملی کہ وہ اس کے دنیاوی فائدے کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے ، اس کے دماغ میں صرف ایک ہی بات رہتی ہے کہ وہ مرے تو اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت چھوڑے ، اس کے لیے وہ اپنی تمام بہترین صلاحیت دنیا کمانے میں لگاتا ہے ، اس کو یہ بات دھیان ہی نہیں کہ اس کو اپنے رب کے پاس جانا ہے جہاں اسے حساب دینا ہوگا ، اس کا پورا مرکز صرف اس کے بچے ہی ہوتے ہیں ان کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگا ديتا ہے، حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آے گا جب بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے ، ترمذی حدیث نمبر
2210
یہ حدیث ان والدین پر پوری طرح فٹ ہوتی ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا کچھ نہیں آتا ، اللہ کے بندو ! کچھ خیال کرو, اپنی آخرت کی بھی فکر کرو ، جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں مال دولت نہ دے سکے ، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ ہے دعا ، وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ میں اپنے بچوں کا باپ ہوں، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے ، تو میرے بچوں کو وہ سب دے جو میں نہیں دے سکا ، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما جس میں تو نے انسان کو یہ تلقین کی ہے ربنا آتنا في دنيا حسنته و في الا خرتي حسنته وقنا عذاب النار ، سورہ بقرہ آیت نمبر
201
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کر سکے تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی ،گویا اس نے اپنے بچوں کو اپنے رب کے حوالے کردیا ، اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرماے، آمین۔
0 Comments