آگرہ: مسجد نہر والی سکندرا کے خطیب محمد اقبال نے آج اپنے خطبہ جمعہ میں حج کے ایک خاص رکن جمرات کو کنکری مارنے پر نمازیوں سے خطاب کیا ، انھوں نے کہا کہ ایسی کیا بات ہے اس حج کے رکن میں کہ اس کے لیے حاجی صاحبان منیٰ کی وادی میں تین دن تین رات ٹھہر کر ایک ہی عمل کو لگاتار تین دن تک کرتے ہیں یعنی علامتی طور پر شیطان کو کنکری مارتے ہیں ، اصل میں اس ننھی سی کنکری میں ایک بہت بڑا سبق ہے ، اور وہ ہے کہ انسان خود یہ فیصلہ اپنے لیے کرے کہ جس طرح میں یہاں علامتی طور پر شیطان کو یہ کنکری مار رہا ہوں ، میں اپنی حقیقی زندگی میں بھی شیطان کو اسی طرح اپنے سے دور رکھوں گا، اس کو اپنے پاس نہیں آنے دونگا ، اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کروں گا ، ایک اچھا مومن بنوں گا ، جب بھی کوئی غلطی ہوگی تو فوراً اللہ سے معافی مانگوں گا ، جو عمل میں یہاں کر رہا ہوں اس کو ہمیشہ اپنی زندگی میں یاد رکھوں گا ، یہ ہے وہ بڑا میسج جو ہمیں اس ننھی سی کنکری کو منی کی اس وادی میں جمرات کو علامتی طور پر مارنے سے ملتا ہے ، لیکن ہم کو نہ یہ میسج یاد ہے اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی وہ بات چیت یاد ہے جو قرآن کریم سورہ الصافات آیت نمبر 100 سے 107 تک درج ہے ، جب ابراہیم نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب مجھے اولاد صالح عطا فرما ، تو ہم نے اس کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی ، پس جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا ، ابراہیم نے کہا پیٹے میں خواب دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں پس تم سوچ لو کہ تماری کیا راے ہے ؟ اس نے کہا کہ اے میرے باپ ، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے آپ اس کو کر ڈالیے ، ان شاءاللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ، پس جب دونوں مطیع ہوگئے اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو ہم نے اس کو آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اس کو نشانی کے طور پر جاری کر دیا ، وادی منی میں بھی اسی کی یادگار ہے اور ہم سب بھی یہ قربانی اسی یادگار میں اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں۔
0 Comments