تحریر: مفتی اشفاق قاضی
ڈائریکٹر: فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر، جامع مسجد بمبئی۔
’کہانیاں ہمارے آس پاس ہی بکھری ہوئی ہیں۔۔۔ وہ گھر، جہاں کبھی قہقہے گونجتے تھے، اچانک چیخ و پکار اور خاموشی کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ رشتے، جن کی بنیاد محبت، اعتبار اور قربانی پر رکھی گئی تھی، کب اور کیسے شکوک، الزامات اور نفرت کی دہلیز پر آن پہنچتے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔لیکن یہ سلسلہ اُن کہانیوں کا نہیں جن میں رشتے ٹوٹ گئے۔۔۔بلکہ ان کہانیوں کا ہے جہاں رشتے ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گئے۔ان کہانیوں کو ہم فرضی ناموں اور شناخت کی مکمل رازداری کے ساتھ، آپ کے سامنے رکھیں گے تاکہ صرف درد نہ بانٹیں، بلکہ سبق دے سکیں‘۔
’’صلح صرف ایک حل نہیں، بلکہ وہ حکمتِ عملی ہے جو دوریاں کم کرتی ہیں جو رشتے بچاتی ہے، وقت بچاتی ہے، اور وسائل بچاتی ہے!‘‘
’’مہاراشٹر کے ایک قدیم اور اہم علاقے میں، جہاں میری زندگی کے کئی برس گزرے، میرا اکثر آنا جانا رہا ہے۔ وہاں کے لوگوں سے ایک خاص تعلق اور قربت ہے۔ ایک دن اسی علاقے کی ایک بڑی مسجد کے چند ذمہ داران نے ملاقات کی۔ ان کے چہروں پر فکرمندی تھی، دل بوجھل تھا۔ بات چیت شروع ہوئی تو جذبات زبان پر آ گئے۔ انہوں نے زبانی ہی نہیں بلکہ تحریری طور پر بھی اپنے مسائل پیش کیے۔واقعہ کچھ یوں تھا۔۔۔’’ تقریباً چالیس برس قبل ٨٠/اسی کے دہائی کی ہے ، مسجد ٹرسٹ نے اپنی قیمتی زمین ایک تعلیمی ادارے کو بہت ہی طویل مدت کے لیے کرایہ (لیز) پر دی تھی۔ اُس وقت کرایہ محض ایک ہزار روپے ماہانہ (فرضی رقم) مقرر کیا گیا۔ جس ادارے کو زمین دی گئی، وہ بعد میں شہر کا ایک معروف اور کامیاب تعلیمی ادارہ بن گیا۔ انہوں نے اسکول، جونیئر کالج اور دیگر تعلیمی عمارتیں تعمیر کیں۔ خاص طور پر مسلمان بچیوں کے لیے، جو حجاب اور نقاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں، یہ ادارہ ایک نعمت ثابت ہوا۔۔۔ انہیں نہ اپنے شعائر سے سمجھوتہ کرنا پڑا اور نہ ہی دور دراز جانا پڑا۔لیکن وقت گزرا، اور مسجد کے ٹرسٹی تبدیل ہو گئے۔ نئے ذمہ داران نے جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ موجودہ کرایہ، جو بڑھ کر پانچ ہزار روپے ماہانہ ہو چکا تھا، مارکیٹ ویلیو (تقریباً لاکھ دو لاکھ روپے) کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ تعلیمی ادارے کے پاس خاطر خواہ سرمایہ ہے ۔۔۔نئی زمینیں خریدی جا چکی ہیں، دو عمارتیں بھی تعمیر ہو چکی ہیں۔اختلاف نے شدت اختیار کی۔ مسجد ٹرسٹ نے کرایہ وصول کرنا بند کر دیا۔ سات سال تک کوئی ادائیگی نہ ہوئی۔ بات الزام تراشی، طعن و تشنیع اور تعلقات کی تلخی تک پہنچ گئی۔ رشتے بگڑنے لگے، ماحول زہر آلود ہونے لگا، اور معاملہ عدالت کی دہلیز تک پہنچنے کے قریب تھا کہ اس نازک مرحلے میں یہ مسئلہ فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر میں لایا گیا، دونوں فریقوں سے تفصیلی گفتگو کے لیے ایک دن طے ہوا۔ صبح سے شام تک چھ سے زائد گھنٹوں کے طویل مذاکرات ہوئے۔ ہم نے مسجد والوں سے کہا ’’مارکیٹ ویلیو کا مطالبہ مناسب نہیں، کیونکہ اصل معاہدہ بہت معمولی کرایے پر ہوا تھا۔‘‘ اور ادارے سے کہا’’آپ بھی سوچیں کہ یہ جگہ مسجد کی ہے، اور آپ ایک نیک مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ مناسب کرایہ ادا کریں، تو مسجد کے فلاحی کام بہتر طریقے سے انجام پا سکتے ہیں۔‘‘ آخرکار، وہ تاریخی فیصلہ ہوا۔۔۔ اصل کرایہ جو پانچ ہزار تھا، مارکیٹ ویلیو لاکھ دو لاکھ کے قریب تھی، مگر دونوں فریقین کی رضامندی سے ساٹھ ہزار روپے کرایہ طے ہوا۔ یعنی دس سے بارہ گنا اضافہ۔ سب مطمئن، سب پرسکون۔تصور کیجیے، اگر معاملہ عدالت پہنچ جاتا۔۔۔تو وکیلوں کی بھاری فیسیں، طویل مقدمہ، وقت اور توانائی کا ضیاع، اور شاید رشتوں کی مکمل بربادی۔لیکن افہام و تفہیم، حکمت، اور نیت کی صفائی سے الحمدہاللہ یہ تنازعہ خوشگوار معاہدے میں تبدیل ہوگیا۔‘‘
’’یہ واقعہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ جب دلوں میں اخلاص ہو، نیت میں خیر ہو، اور بات چیت کا دروازہ کھلا ہو، تو برسوں پرانے تنازعات بھی سلجھ سکتے ہیں۔ فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر نے صرف ایک تنازعہ نہیں، بلکہ دو اداروں کے درمیان اعتماد، عزت اور تعاون کا رشتہ بحال کیا۔ یہی اصل کامیابی ہے۔۔۔کہ ہم مسائل کو عدالت کے کٹہرے کے بجائے دلوں کی عدالت میں حل کریں۔اگر آپ کے اردگرد بھی خاندانوں، بھائیوں، اداروں یا جوڑوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔اگر طلاق، خلع، وراثت، مالی تنازعات یا ذہنی دباؤ آپ کی زندگی کو الجھا رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کا سوچ رہے ہیں، جہاں صرف روپے نہیں، رشتے بھی ٹوٹتے ہیں — تو ذرا ایک لمحے کو ٹھہرئیے۔۔۔۔نفرت کی دیوار کھڑی کرنے سے پہلے، محبت کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کیجئے۔۔۔۔فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر نے بے شمار ٹوٹتے رشتوں کو جوڑا ہے۔۔۔بھائیوں کے درمیان صلح کروائی ہے۔۔۔اداروں کے درمیان مفاہمت کی راہیں نکالی ہیں۔۔۔ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد کو نئی زندگی دی ہے۔۔۔اور یہ سب کچھ قرآن و سنت کی روشنی، صبر و حکمت، ہمدردانہ مشورے ،مکمل رازداری اور وقار کے ساتھ حل کیا ہے ۔تو اگر آپ بھی کسی آزمائش میں ہیں، یا جانتے ہیں کوئی ایسا خاندان یا ادارہ جو الجھنوں میں گھرا ہے — رابطہ کیجئے۔شاید۔۔۔اگلی کہانی آپ کی ہو جو ٹوٹنے سے بچ جائے‘‘۔۔۔

0 Comments