Latest News

دیوبند میں منعقد جمعیت کے اجلاس میں نفرت انگیزی، اسلامو فوبیا، یکساں سول کوڈ، گیان واپی مسجد، اہانت رسول اور فلسطین کے متعلق پیش ہوئی تجاویز، مسلم مجلس مشاورت سے تعلق سمیت ایک درجن سے زائد تجاویز کو منظوری۔

دیوبند میں منعقد جمعیت کے اجلاس میں نفرت انگیزی، اسلامو فوبیا، یکساں سول کوڈ، گیان واپی مسجد، اہانت رسول اور فلسطین کے متعلق پیش ہوئی تجاویز، مسلم مجلس مشاورت سے تعلق سمیت ایک درجن سے زائد تجاویز کو منظوری۔
 دیوبند: (سمیر چودھری)
(۱) ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی کی روک تھام کے اِقدامات پر 

آج ہمارا ملک نفرت اور مذہبی تعصب کی آگ میں جل رہا ہے ۔خواہ لباس ہو، کھانا ہو، عقیدہ ہو، تہوار ہو، یا زبان و معیشت ہو،ہندستانیوں کو ہندستانیوں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں لگانے کے بجائے تخریب کا آلہ کار بنایاجارہا ہے۔ اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کی ےہ سیاہ آندھی سرکاری سرپرستی میں چل رہی ہے، جس نے اکثریتی طبقے کے ذہن کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مزید برآں قومی میڈیا اشتعال پھیلانے کا سب سے بڑا حربہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں، مسلم حکمرانوں اور اِسلامی تہذیب کے خلاف بے ہودہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کی مہم پورے شباب پر ہے اور ارباب اقتدار قانونی گرفت کے بجائے ان کو آزاد چھوڑ کر حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
جمعیة علماءہند اس بات پر فکر مند ہے کہ مسلم اور اسلام دشمنی کے اعلانیہ اوراجتماعی اظہارکے باعث، عالمی سطح پر وطن عزےز کی بدنامی ہو رہی ہے اور اقوام عالم میں ہندستان کی متعصب، تنگ نظر اور مذہبی انتہا پسندی کی شبیہ بن رہی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندستان مخالف عناصر کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔
اےسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور ترقی کے حوالے سے جمعیة علماءہند حکومت ہند کو متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ فوری طورایسے اقدامات پر روک لگائے، جو جمہورےت، انصاف اور مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اِسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اکثرےت کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے اپنا تسلط قائم رکھنا، ملک کے ساتھ وفاداری نہیں؛ بلکہ سراسر دشمنی ہے۔ آج کل جس طرح قومی یکجہتی کو جعلی قوم پرستی کے نام پر سبوتاژ کیا جارہا ہے، اُس کو جمعیة علماءہند صرف مسلمانوں کا نہیں؛ بلکہ پوری قوم کا نقصان عظیم اور وطن کی سالمیت کے لیے خطرناک سمجھتی ہے۔
جمعیة علماءہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد سے اپےل کرتا ہے کہ رد عمل اور جذباتی سےاست کے بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کرےں او رملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لےے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
اگر فسطائی جماعتوں اور اُن کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ اُن کے اِس جبر وظلم کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے اور وطن عزیز میں وہ اُن کی غلامی اور جبرکی زنجیروں میں بندھ جائیں گے، تو یہ اُن کی خام خیالی ہے ، ہندستان ہمارا ملک ہے، اِس ملک میں ہم پیدا ہوئے ہیں اور اس کی فضاﺅں میں ہم پروان چڑھے ہیں۔ ہمارے آباواَجداد نے اِس ملک کو نہ صرف مضبوط ومستحکم کیا ہے؛ بلکہ اس کے تحفظ وبقا کے لیے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں، اِس لیے ہم ملک میں مسلمانوں، یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ نااِنصافی اور اِمتیازی برتاﺅ کو برداشت نہیں کرسکتے۔
جمعیة علماءہند اُمت کے نوجوانوں اور طلبہ کی تنظےموں کو خاص طور سے متنبہ کرتی ہے کہ وہ اندرونی وبیرونی وطن دشمن عناصر کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے ، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، اِس لیے حالات سے ہرگز مایوس نہ ہوں اور نہ ہی صبر وہوش کا دامن چھوڑیں؛ بلکہ اپنی ملی تنظیموں اور ذمہ دار شخصیات پر اعتماد رکھیں۔

(۲) اسلامو فوبیا کے انسداد سے متعلق تجویز

ہندستان میں اِسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ اِسلاموفوبیا، صرف مذہبی عداوت نہیں؛ بلکہ عداوت کو ذہن اور فکر پر حاوی کرنے کا نام ہے، جو ایک عالم گیر اَلمیہ اور انسانی حقوق اور جمہوری اَقدار سے متصادم ہے، جس کی وجہ سے پوری قوم کو مذہبی، سماجی اور سیاسی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا وطن عزیز پہلے کبھی اس حد تک اس کی زد میں نہ تھا؛ لیکن آج ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوںکے ہاتھوں میں چلی گئی ،جو ملک کی صدیوں پرانی شناخت کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشترکہ اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اُن کو صرف اپنا اقتدار عزیز ہے۔ اِس صورتِ حال پر جمعیة علماءہند انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل تدابیر اپنانے کی ضرورت محسوس کرتی ہے:
(۱) لاءکمیشن کی 2017ءمیں شائع ہونے والی 267 ویں رپورٹ کے مطابق تشدد پر اکسانے والوںکو خاص طور پر سزا دےنے کے لیے ایک علاحدہ قانون وضع کیا جائے اور سبھی اقلیتوں؛ بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی واقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں پر روک لگائی جائے۔
(۲) تمام مذاہب، نسلوں اور قوموں کے درمیان رواداری، پرامن بقائے باہم اور بین المذاہب ثقافتی ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف سے مقررہ ۵۱ مارچ کو ہر سال” عالمی اسلامو فوبیاڈے“ منایا جائے، جس میں انسانی وقار کے احترام کا واضح پیغام دیا جائے، اور ہر قسم کی نسل پرستی ومذہبی امتیاز کے خاتمے کے لیے مشترکہ عزم کا مظاہرہ کیا جائے۔
(۳) اِن حالات کے تدارک کے لیے جمعیة علماءہند نے ”جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ انیشیٹو فار انڈین مسلمس“ کے نام سے ایک مستقل شعبہ قائم کیا ہے، جس کا مقصد ظلم وستم کو روکنا اور اَمن وانصاف کے قیام کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ےہ جنگ صرف ایک شعبہ قائم کرکے نہیں جیتی جاسکتی؛ بلکہ اس کے لےے ہر سطح پر مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے، اس لیے جمعیة علماءہند اپنی سبھی اکائیوں کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ اس تحریک کا حصہ بنیں اور دلچسپی کے ساتھ اس کے کاموں میں شریک ہوں۔

(۳) دستوری حقوق سلب کرنے اور یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوششوں پر اظہار تشویش

مسلم پرسنل لاءمیں جو اُمور شامل ہیں، مثلاً :شادی ، طلاق، خلع ،وراثت وغیرہ وہ کسی سوسائٹی ، شخصی یا گروہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں ، نہ وہ تہذیب اور رسم و رواج کے معاملات ہیں ، بلکہ وہ بھی نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کی طرح مذہبی احکام کا حصہ ہیںاور قرآنِ کریم واحادیث شریفہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اِس لیے اِسلام سے ثابت شدہ قوانین، یا احکا م میں کسی بھی طرح کی تبدیلی ،یا اس پر عمل کرنے سے کسی کو روکنا؛ دین اسلام میں صریح مداخلت اور دستور ہند کی دفعہ25 میں دی ہوئی ضمانتوں کے خلاف ہے۔
لیکن موجودہ سرکار یکساں سول کوڈ لاکر مسلم پرسنل لاءکو ختم کرنا چاہتی ہے اور سابقہ حکومتوں کی یقین دہانیوں اور وعدوں کو پس پشت ڈال کر ملک کے آئین کی اصل روح کو نظر انداز کررہی ہے۔
جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس حکومت ہند کو متنبہ کرتا ہے کہ مسلمان اِسلامی اَحکامات میں کسی قسم کی تبدیلی ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب دستور ہند کی ترتیب عمل میں آئی، تو بنیادی حقوق کے تحت واضح اور صریح الفاظ میں ےہ ضمانت دی گئی کہ ملک کے ہر شہری کو آزادی ض ©میر اور آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر کاربند رہنے اورتبلیغ و تعلیم کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ اِس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین ہند کی بنیادی دفعات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم پرسنل لاءکے تحفظ کے سلسلے میں واضح آرڈینیس جاری کیا جائے۔
اگر حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، تو مسلمانانِ ہند اور دیگر طبقات اِس عظیم ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے، اور اس کے لیے دستوری اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہرطرح کے اقدامات پر مجبور ہوں گے۔
اس موقع پر جمعیت علمائے ہند مسلمانان ہند کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ شریعت میں مداخلت کی راہ اسی وقت ہموار ہوتی ہے ، جب مسلمان بذات خود شریعت پر عمل کرنے میں مستعد نہ ہوں۔ اگر مسلمان اپنی شریعت کے تمام احکام کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے مستعد رہیں، تو کوئی قانون ان کو اس سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے تمام مسلمان شریعت اسلامیہ پر پوری طرح ثابت قدم رہیں اور مایوسی و مرعوبیت کے شکار نہ ہوں۔

(۴) اقلیتوں کے تعلیمی اور اقتصادی حقوق پر غور۔
مسلمانوں کی تعلیمی و اقتصادی صورتِ حال کی اَبتری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اِس سلسلے میں سچر کمیٹی وغیرہ کی رپورٹیں چشم کشا اور حقیقت حال کی آئینہ دار ہیں۔ اِس خراب صورتِ حال میں جہاں ایک طرف حکومتی پالیسیوں کا دخل ہے، وہیں ہم مسلمانوں کا رویہ بھی نامناسب اور غیرذمہ دارانہ ہے۔
اِس لیے جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس جہاں مرکزی وصوبائی حکومتوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیمی واقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اِقدامات کریں اور اِس راہ کی رکاوٹوں کو دور کریں۔ وہیں مسلمانوں سے بھی پرزور اپیل کرتا ہے کہ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ تعلیمی واقتصادی میدان میں آگے بڑھیں۔اپنے بچوں او ربچیوں کو تعلیم دلانا اور اُن کی صحیح تربیت کرنا، کھانے پینے سے بھی زیادہ ضروری سمجھیں۔
نیز آج کے اجلاس کا یہ خاص پیغام ہے کہ مسلم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے اسکول اور کالج الگ سے قائم کیے جائیں؛ تاکہ اُن کے عقائد اور اِسلامی اَقدار کا تحفظ ہوسکے۔

(۵) گیان واپی اور متھرا عید گاہ سے متعلق تجویز
جمعیة علماءہند کایہ اجلاس قدیم عبادت گاہوں کے تنازعات کو بار بار اٹھا کر ملک کے امن و امان کو خراب کرنے والی طاقتوں اور ان کے پس پشت سیاسی مفاد رکھنے والی جماعتوں کے روےے سے سخت نفرت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔گیان واپی مسجد، متھرا عید گاہ اور دیگر مساجدان دنوں ا سی منافرتی مہم کی زد میں ہیں، جس کا حتمی نتیجہ ملک کے امن و امان اور اس کے وقار و سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔
ایودھیا تنازع کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن وامان کو بہت نقصان پہنچاہے۔ اب ان تنازعا ت نے مزید محاذ آرائی اور اکثریتی غلبہ کی منفی سیاست کونئے مواقع فراہم کیے ہیں۔
حالاںکہ پرانے تنازعات کو زندہ رکھنے اور تاریخ کی مزعومہ زیادتیوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنے سے ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اِس سلسلے میں بنارس کی ذیلی عدالت نے تفرقہ انگیز سیاست کو مدد فراہم کی ہے اور عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ۱۹۹۱ءکو صریح طرےقے سے نظرانداز کیا ہے، جس کے تحت یہ طے ہوچکا ہے کہ 15اگست1947 کو جو عبادت گاہ جس حیثیت پر قائم تھی، اُسی پر قائم رہے گی۔نیز بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فےصلے کو نظر انداز کیا ہے، جس میں دیگر عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق اس ایکٹ کا خاص طور سے تذکرہ کیا گیا تھا۔
جمعیة علماءہند ارباب اقتدار کو متوجہ کرتی ہے کہ تاریخ کے اختلافات کو زندہ کرنا ؛ملک کے امن و امان کے لےے ہرگز مناسب نہیں ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے میں عبادت گاہ ایکٹ ۱۹۹۱کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح بتایا ہے، جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اورمذہبی گروہوں کو اس معاملے میں گڑے مرد اکھاڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تب ہی جاکر آئین کے ساتھ کےے گئے عہد کی پاسداری ہوگی، ورنہ آئین کے سا تھ بہت بڑی بدعہدی کہلائے گی۔

(۶) مسلم اوقاف سے متعلق تجویز
مجلس منتظمہ جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس اوقافی جائےدادوں کے تحفظ اور ان کی آمدنےوں کو صحےح مصارف اور واقف کی منشا کے مطابق استعمال کرنے کے سلسلے مےںاپنی فکر مندی کا اِعادہ کرتا ہے، آزادیِ ہند کو اےک طوےل عرصہ گزر جانے کے بعد تمام تر کوششوں اور دعو ¶ں کے باوجود موقوفہ جائےدادوں کے تحفظ اور آمدنی اورخرچ کے سلسلے مےں نظام صحےح نہےں ہوپاےا ہے۔ اس کے علاوہ وقف کی ایسی بہت ساری جائیدادیں ہیں، جن کو حکومتوں نے بالجبر اپنے قبضے اور تصرف میں لے رکھا ہے۔ جمعےة علماءہند کا یہ اجلاس مسلم اَوقاف سے متعلق حکومت سے درج ذیل مطالبہ کرتا ہے:
(۱) وقف ایکٹ ۵۹۹۱ءمیں سیکشن 107شامل کیاگیا تھا،جس کے تحت لیمیٹیشن ایکٹ 1963ءسے وقف جائدادیں مستثنیٰ قراردی گئیں۔اس ترمیم کا فائدہ تب ہوگا جب اسے ماضی سے نافذالعمل قرار دیاجائے ،کیوںکہ وقف کی اکثرجائدادیں ،جن پر ناجائز قبضے ہیں ، یا جن سے متعلق عدالتوں میں مقدمات قائم کیے جاسکتے ہیں، وہ بیشتر ماضی سے تعلق رکھتے ہیں ۔چوں کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ کہاہے کہ لیمیٹیشن ایکٹ سے استثنیٰ 1996ءسے پہلے کے جائدادوں پرلاگو نہیں ہوگا،اس لیے اس کی شدید ضرورت ہے کہ قانون میں ترمیم کرکے اس کے نفاذ کی مدت کو ماضی سے ماناجائے، تاکہ ان تمام جائدادوں کے سلسلے میں راحت مل سکے جوناجائز قبضے میں ہیں۔
(۲) تمام صوبوں میں وقف جائدادوں کو کرایہ قانون سے مستثنیٰ کیا جائے ۔
(۳) جن مقامات پروقف بورڈ کی تشکیل نہیں ہوپائی ہے اور جہاں افسران اور وقف بورڈ کے عہدیداروں کی آسامیاں خالی ہیں ، وہاں فوری طورپر وقف بورڈ کی تشکیل کی جائے اور نئے تقررکیے جائیں۔ تمام وقف بورڈ کے دفاتر میں فل ٹائم CEO مقرر کیا جائے ISاورIPSکے طرز پر انڈین اوقاف سروسز کا خصوصی کیڈر بنایا جائے۔
(۴) اَوقاف کی اِفادیت اور پسماندہ مسلم اقلیت کی معاشی ترقی کے حوالے سے قائم کردہ وقف ڈیولپمینٹ کارپوریشن کوفعال کرکے مقصد برآری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں اور جلد ازجلد عملی اقدامات کی رپورٹ (ATR) پیش کی جائے۔
(۵) محکمہ اَوقاف اور محکمہ آثار قدےمہ کے زےر انتظام جو وےران اور غےر آباد مساجد ہےں، جمعےة علماءہند کا ےہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ بلا تاخےر ان کو واگزار کےا جائے اور ان مےں نماز کی اجازت دی جائے۔نیز جہاں نمازیں ہو رہی ہیں، ان میں نماز سے نہ روکا جائے۔
(۶) SGPC کے طرز پر وقف بورڈ کو خود مختار ادارہ بنایا جائے۔
(۷) اَوقاف سے متعلق سچر کمےٹی کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے اور اس کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کےے جائےں۔
(۸) صوبائی سطح پر ہر حکومت وقف بورڈ کی تمام اکائیوں کو فعال کرے اور جدےد رہنما ہداےات کے مطابق نئے سرے سے سروے کراےا جائے، جس میں مزارات، مساجد، امام باڑے اور دیگر اوقافی جائیدادیں شامل ہوں۔ سروے مےں درج ذیل اَعداد وشمار جمع کیے جائیں:
(۱) کتنے اَوقاف مسلم انتظامیہ کے قبضے میں ہیں؟
(۲)۔ کتنے اوقاف شخصی قبضے میں ہیں؟
(۳) کتنے اوقاف غیر مسلموں کے قبضے میںہیں؟
 (۴) کتنے اوقاف مرکزی و ریاستی حکومتوں کے قبضے میں ہیں؟
 (۵) اُن کی تخمینی مالیت کیا ہے اور آمدنی کتنی ہے؟
ہر صوبے کا چیف منسٹر وقف بورڈ کے چیئرمین کو ایک لیٹر بھیجے، جس میں جلد از جلد سروے مکمل کرنے کی ہدایات ہوں۔
(۹) جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس تمام مسلمانوں؛ بالخصوص اَوقاف کے متولیوں اور انتظامیہ کمیٹیوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اَوقاف کی حفاظت میں اپنی دینی وشرعی ذمہ داریاں نبھائیں اور مالی خوردو برد اور اَسباب ضیاع سے بچانے کی ہرممکن کوشش کریں۔

 (۷) سدبھاﺅنا منچ کے مستحکم کرنے پر غور

جمعےةعلماءہند کے دستور کی دفعہ (۸) ”سماجی خدمات“ کے تقاضوں کے مطابق اجلاس مجلس منتظمہ منعقدہ ۲۱ستمبر ۹۱۰۲ءمیں ”جمعےة سدبھاﺅنا منچ“ کی تشکیل کا فیصلہ لیا گیا تھا ، جس مےں کم ازکم گےارہ ممبر ہوں گے، اُن میں نصف غےر مسلم اَفرا د ہوں گے۔ اِس منچ مےں جمعےة کے فعال (اےکٹیو) ممبران اور بلالحاظ مذہب وملت مقامی ذمہ داروں کو شامل کےا جائے گا۔ منچ ہر ماہ مےٹنگ منعقد کرے گی، جس مےں برادرانِ وطن کی شرکت کو ےقےنی بناےا جائے اور دستور کی دفعہ (۸) میں درج ہداےات کے مطابق مشترک عملی اقدامات کیے جائےں۔
(۱) مختلف مذہبی فرقے کے لوگوں کا مشترکہ اِجتماع کرنا۔
(۲) شہری ضرورےات کی تکمےل کے لیے جد وجہد کرنا۔
(۳) مزدوروں، کسانوں اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کرنا۔
(۴) ےتےموں، بےواﺅں، مجبور لوگوں کی مدد کرنا۔
(۵) منشےات اور جنسی بے راہ روی کی روک تھام کے لیے اجتماعی جد وجہد کرنا۔
(۶) حساس مذہبی مسئلوں (مثلاً گﺅ کشی، عبادت گاہوں مےں لاﺅڈ اسپےکر کا استعمال، مذہبی تہواروں، نےز عبادات کے لیے عوامی مقامات کا استعمال جےسے مسائل) میں باہمی گفت وشنےد سے پر اَمن حل نکالنا ۔
(۷) ماحولےات کے تحفظ جےسے شجرکاری، پانی کے استعمال مےں احتےاط اور گندگی سے علاقے کو پاک کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا۔
آج کے مخصوص حالات میں ےہ اجلاس جمعیة علماءکے ذمہ داروں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اس تحریک کو مستحکم کرےں اور بلاتاخیر اپنے اپنے علاقوں میں” جمعیة سدبھاﺅنا منچ“ کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔
جمعیة علماءیہ بھی ا علان کرتی ہے کہ وہ دھرم سنسد کے ذریعہ نفرت پھےلانے والے اَفراد اور گروہوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ملک گےر سطح پر کم از کم ایک ہزار” سدبھاﺅنا سنسد“ منعقد کرے گی، جس میں سبھی مذاہب کے بااثر اَفراد کو مدعو کیا جائے گا۔

(۸) اِسلامی تعلیمات کے سلسلے میں غلط فہمیوں کے اِزالہ اور اِرتدادی سرگرمیوں کے اِنسداد پر غور

مجلس منتظمہ جمعےة علماءہند کا ےہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ دور حاضر مےں مذہب اسلام کے بارے مےں منصوبے کے تحت غلط فہمےاں پھےلائی جارہی ہےں، جن سے نہ صرف انصاف پسند غےر جانب دار برادرانِ وطن مت Éثر ہوتے ہیں؛ بلکہ اُن کا اثر ہماری نئی نسل پر بھی پڑرہا ہے۔ ےہ غلط فہمےاں خاص طور پر دہشت گردی، شدت پسندی اور خواتےن کے ساتھ غےر منصفانہ سلوک کے حوالے سے پےدا کی جارہی ہےں۔
اِس لیے ہمارا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ ہم اہل وطن کے درمیان ، اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، اُن کے اِزالہ کی کوشش کریں۔ بالخصوص مےڈےا کے غلبہ کے دور مےں، مےڈےا کے ذرےعے اسلامی احکام و عقائد و قوانےن کے خلاف پروپےگنڈہ اور اسلامی تحرےکات کی کردارکشی کی مہم کا موثر جواب دےا جانا ؛آج کے دور کی سب سے بڑی ض ©رورت ہے۔ اِس سلسلے میں فوری طور سے درج ذیل اِقدامات کی ضرورت محسوس ہو تی ہے:
(۱) سوشل میڈیا کے ذریعہ اےسے پیغامات تیار کرکے نشر کرنا، جو اِسلام کے محاسن اور مسلمانوں کے صحیح کردار کو اُجاگر کرےں۔
(۲) جدید تعلیم یافتہ ذہنوں میں پرورش پارہے اِلحادی اَفکار کی اِصلاح کے لیے اُن کے مزاج سے ہم آہنگ مواد فراہم کرنا اور موقع بموقع اُس کے لیے تربیتی اِجتماعات منعقد کرنا۔
(۳) سیرت کے عنوان سے اِسلامی کوئز منعقدکرنا اور اُس میں سبھی مذاہب اور طبقات کے طلبہ کو شامل کرنا۔
آج کا یہ اجلاس بالخصوص جمعیة علماءکے ذمہ داروں اور بالعموم مدارسِ اسلامیہ، ملی تنظیموں سے التماس کرتا ہے کہ وہ اِس سلسلے میں خصوصی بیداری کا مظاہرہ کرےں اور دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

(۹) فلسطےن اور عالم اسلام سے متعلق تجوےز
جمعےة علماءہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس فلسطین میں اسرائیلی تشدد اور مسجد اقصی میں نمازیوں کے ساتھ مارپیٹ پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ تشدد اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اسرائیل کی ایک شناخت بن گئی ہےں ۔ نہتے اور کمزور فلسطینیوں اور ان کے بچوں کو قتل کرنا اس دہشت گرد اور شیطانی حکومت کی صفت خاصہ ہے ، یہ اس کی توسیع پسندانہ سوچ کا مظہر ہے کہ پچاس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہیں اور وہ لگاتار اس سلسلہ ستم کو جاری رکھا ہواہے۔جمعیة علماءہند اِس سلسلے میں بین الاقوامی برادری سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس ظلم و ستم کے طویل عہد کے خاتمے کے لےے درج ذیل فوری اِقدامات کو بروے کار لائے :
(۱) اَقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1860 (2009) کے مطابق اسرائیل کو غزہ کی 15 سالہ پرانی ناکہ بندی ختم کرنے اور کراسنگ پوائنٹس کھولنے پر مجبور کیا جائے ۔
(۲) اَقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (2016) کے مطابق اسرائیل کو مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی تمام سرگرمیاں بند کرنے کی ہدایت دی جائے ۔
(۳) اِسرائیل مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں اور زیادتیوں سے فوری طور سے بازآئے ، جس میں طاقت کا ناجائز استعمال،مکانات کی مسماری ، جبریہ بے دخلی اور بین الاقوامی اصولوں کی فوجی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنایا جائے۔
(۴) مسجد اقصی میں نمازیوں کے آزادانہ داخلے کو یقینی بنایا جائے اور اس پر اسرائیلی تسلط کا جلد خاتمہ کیا جائے۔
(۵) اےک آزاد خو د مختار فلسطےنی رےاست کے قےام کو یقینی بنایا جائے اور اسرائےل کو مجبورکیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے اور مقبوضہ عرب علاقوں کو خالی کرے۔
(۶) ہندستان نے ہمےشہ اور ہر فورم پر فلسطےنےوں کی جد وجہد اور آزاد فلسطےنی رےاست کے قےام کی حماےت کی ہے، یہ ملک کی شان دار روایت رہی ہے کہ اس نے استعماری اور قابض طاقتوں کی مخالفت کی ہے ۔موجودہ وقت میں ہماری حکومت سے امید ہے کہ وہ اس روایت کو باقی رکھے گی۔
(۷) جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس فلسطین کے علاوہ عالم اسلام کے دیگر ممالک؛ بالخصوص شام اور یمن کی صورتِ حال پر بھی اپنے دکھ اور قلق کا اظہار کرتا ہے اوریہ مخلصانہ اپیل کرتا ہے کہ مسلمانوں کا حکمراں طبقہ، نہایت بیدار مغزی اور دردمندی کے ساتھ حالات کے تقاضوں کو محسوس کرے اور اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر اَدا کرے۔
 (۱۰) ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تجویز
اِنسانی زندگی میں صفائی و ستھرائی کی بڑی اہمیت ہے، اِس کے بغیر کسی سنجیدہ قوم اور مہذب معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے تمام مذاہب اور قدیم ترین تہذیبیں خصوصیت سے صفائی پر زور دیتی رہی ہیں۔اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو صفائی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔نیز ماحولیاتی انحطاط، موسمی تبدیلی اور غیر پائیدار ترقی کی وجہ سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے انسانی حقوق بشمول جےنے کے حق کو سب سے زیادہ دباو اور سنگین خطرات ہیں۔اس کے مدنظر جمعیة علماءہند ملک کے باشعور شہریوں کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ:
(۱) خود کی صفائی ،اپنے گھر اور گھر کے باہر والے حصے کی صفائی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں شامل کریں ۔
(۲) اَئمہ مساجد، مقررین اور بااثر افراد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو عام کریں کہ
” گندگی صرف گندگی نہیںہزاروں وبائی امراض کی جڑ ہے“۔(۳) فضائی آلود گی سے بچنے کے لیے آکسیجن پارک اور بڑی تعداد میں شجرکاری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اِسی طرح پانی قدرت کا حسین تحفہ ہے، جس سے بشمول انسان تمام مخلوقات کی حیات وابستہ ہے۔ اس لیے ہمیں ےہ جائزہ لےنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی میں پانی کے اسراف سے کس طرح بچیں ، بالخصوص مذہبی ادارے خود کو بطور آئیڈیل پیش کریں۔ مسجدوں اورعبادت گاہوں میں ایسا سسٹم اپنانا چاہیے کہ بلاضرورت پانی کا استعمال نہ ہو۔
(۱۱) ہندی زبان اختیار کرنے سے متعلق تحویز 
 اردو زبان سے ہمارا قومی ووطنی رشتہ ہے، یہ ہماری علمی، تاریخی اور مذہبی ورثہ کی امین ہے ، نیز یہ زبان مسلمان اور اہل وطن کی مادری زبان ہے ۔لیکن اس کا ہرگز ےہ مطلب نہیں ہے کہ ہم قومی زبان ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں،بنگالی، تامل، ملیالم، پنجابی ، گجراتی ، آسامی وغیرہ سے احتراز کریں۔بلکہ یہ بھی بلاتفریق ہماری اپنی زبانیں ہیں اور برادران وطن کے ساتھ رابطے، باہمی افہام و تفہیم اور رشتوں کے استحکام کے لےے انتہائی سود مندہیں اس لیے ہم اپنے اکابر کی روایات و ہدایات کے مطابق مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں ، اس سلسلے میں ائمہ حضرات،واعظین و مقررین کو خاص طو رسے متوجہ کیاجاتا ہے کہ وہ جمعہ اور دینی جلسوس کی تقاریر و پیغامات ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں پیش کریں۔
اس موقع پر حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی ؒ کے اس خطاب کا تذکرہ مفید ہے جو آپ نے جمعیة علماءہند کے سترہویں جلاس عام بمقام حیدرآباد میں ہندی کو علمی زبان بنانے سے متعلق فرمایا :” مسلمان جو کم و بیش سو برس تک غیر ملکی زبان یعنی انگریزی کو فروغ دےنے میں سرگرم عمل رہے ، کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندی سے نفرت کریں یا اس کو علمی زبان بنانے کی کوششوں میں حصہ نہ لیں ، انگریزی بہت سے سمندروں کو پار کرکے ہندستان پہونچی تھی لیکن ہندی زبان کسی دوسرے ملک سے نہیں آئی ، وہ خود ان کے ملک میں پیدا ہوئی اور بہت سے علاقوں میں خود مسلمانوں نے اس کی تخلیق میں حصہ لیا“

(۱۲) اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز
جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس انتہائی قلق کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ پیشوایان مذہب بالخصوص پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نفرت انگیز اور گستاخانہ بیانات ، مضامین و نعروں کا سلسلہ دراز ہو تا جارہا ہے جو مسلمانوں اور ملک کے دیگر با شعور افراد اور گروہوں کے لیے سوہان روح ہے۔
مسلمان جو تمام برگزیدہ انسانوں کے احترام کو جزو ایمان سمجھتے ہیں ، جب وہ معلم شرافت و انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ حرکتیں دےکھتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کا احساس شدید ہوتا ہے اور وہ ایک روح فرسا اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ان کی انسانیت نواز بے چینی کا جواب ، ارباب اقتدار کی طرف سے نہایت سرد مہری سے دیا جاتا ہے ۔
بے شک یہ اغراض پرستی کہ تحفظ ناموس مقدس کو سیاسی اغراض یا ذاتی مقصد کا آلہ ¿ کار بنا کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جائے نہایت شرمناک او رمستحق صد ہزار نفرت ہے۔
جمعیة علماءہند کو اس کا شدت سے احساس ہے کہ یہ واقعات جس رنگ سے پیش آرہے ہیں،و ہ فرقہ پرستوں کی سوچی سمجھی اسکیم کا نتیجہ ہیں ،اس لےے ایسے قانون کی شدید ضرورت محسوس ہو تی ہے جس سے اس قسم کی فتنہ انگیزیوں کا سد باب ہو اور پیشوایان مذاہب کی عزت و حرمت محفوظ رہے۔
اس لیے جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس ےہ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت جلد ازجلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے لاءاینڈ آرڈر کی موجودہ بے بسی ختم ہو ، اس قسم کی شرمناک ناگفتہ بہ حرکتوں کا انسداد ہو اور پیشوایان مذاہب کا احترام جو تمام انسانوں کا مشترک فرض ہے ، محفوظ رہے ۔اس سلسلے میں جمعیة علماءہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کر رکھی ہے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جاری کردہ ہدایات پر عمل در آمد کیا جائے ۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ عدالت عظمی اس سلسلے میں جلدا ز جلد اپنی ہدایات کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت ہند کو متنبہ و بیدا کرے گی ۔
لیکن اسی کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھےجے جانے والے ہمارے رسول کی سیرت و کردار اور انسانیت کے لیے آپ کی خدمات و قربانیوں سے عام لوگوں کو ان کی زبان میں واقف کرایا جائے۔ اہل علم و اصحاب قلم اپنی صلاحیتیں ایسے مفید اور مختصر کتابچوں کی تصنیف و تالیف میں صرف کر یںاور ایسے مختصر پیغامات بنائیں جو آڈیو یا ویڈیوزکی شکل میں سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں تک پہنچایا جائے تا کہ اذہان کی پیدا کردہ غلط فہمیوںکا ازالہ کیا جاسکے ۔

(۱۳)آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور دیگر متوازی تنظیموں کے سلسلے میں تجویز
جمعیة علماءہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ملک کی دیگر نظریاتی جماعتوں کے ذریعہ کےے جارہے قومی وملی مفاد کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دےکھتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، تاہم اس بات کی وض ©احت ضروری ہے کہ ایسی جماعتوںمیں بحیثیت رکن شامل ہونا مناسب نہیں ہے جو جمعیة کے نظریے سے اتفاق نہیں رکھتی ہو۔
اسی پالیسی کے تحت ماضی میں جمعیة کے اراکین کو مجلس مشاورت کے ساتھ اشتراک عمل سے روکا گیا تھا ، موجودہ حالات میں مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس یہ واضح کرتا ہے کہ مجلس مشاورت کے پروگراموں میں شرکت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ،البتہ رکنیت اور عہدہ قبول کرنا مناسب نہیں ہے ۔
(۱۴) تجویز تعزیت
مجلس منتظمہ جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس ملک وبیرون ملک کی ان مقتدر اور اہم شخصیات کے سانحہ ارتحال پر رنج وغم کا اظہار کرتا ہے اور مغفرت وبلندی درجات کی دعاکرتا ہے، جو گذشتہ اجلاس مجلس منتطمہ منعقدہ ۲۱، ستمبر ۲۱۰۲ءسے اب تک داغ مفارقت دے کر راہی آخرت ہوئے ہیں، بالخصوص حضرت امیر الہند رابع صدر جمعیة علماءہند مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری ؒ ،جمعیة علماءہند کے دونوں نائبین صدر حضرت مولانا مفتی خیر الاسلام ، حضرت مولانا امان اللہ قاسمی ،حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالخالق سنبھلی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا سید محمد ولی رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری، مولانا نور عالم خلیل امینی استاذ ادب دارالعلوم دیوبند،مولانا جابر قاسمی صدر جمعیة علماءاڈیشہ، پروفیسر نثار احمد انصاری کی اہلیہ محترمہ،مولانا عبدالاحد قاسمی صدر جمعیة علماءضلع سہرسہ بہار، مولانا الیاس صاحب بارہ بنکوی شیخ الحدیث جامعہ کاشف العلوم مرکز نظام الدین ،مولانا نظام الدین خاموش رکن شوری دارالعلوم دیوبند،مولانا رفیق احمد قاسمی جماعت اسلامی ہند،احمد پٹیل، مولانا کلب صادق،والدہ محترمہ مولانا احمد شاہ خضر مسعودی صاحب،مولانا نثار احمد قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم اسلامیہ بستی،مولانا ابوبکر قاسمی ناظم اعلی جمعیة علماءجھارکھنڈ، محمود الظفررحمانی رام پور،مولاناشبیر احمد قاسمی نائب صدر جمعیة علماءراجستھان، والدہ مفتی ذکاوت حسین صاحب ، مولانا سعدان قاسمی ،جناب محمد مظفر حسین صاحب جہاز قطعہ والد گرامی مولانا یسین جہازی صاحب.

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر