Latest News

ہم بھی چاہتے ہے ہمارے بچے ڈاکٹر ،انجینئر بنیں، ہم عصری علوم کےخلاف نہیں ہیں لیکن پہلے مذہبی تعلیم دینا ضروری :مولانا سیدارشد مدنی۔

ہم بھی چاہتے ہے ہمارے بچے ڈاکٹر ،انجینئر بنیں، ہم عصری علوم کےخلاف نہیں ہیں لیکن پہلے مذہبی تعلیم دینا ضروری :مولانا سیدارشد مدنی۔
دیوبند: دارالعلوم دیوبند میں اتوار کو اترپردیش کے مدارس کا سرکاری سروے کے تناظرمیں ایک اہم میٹنگ کا انعقادہوا، جس میں بڑی تعداد میں مدارس کے ذمہ داران نے شرکت
کی۔ اس میٹنگ میں جمعیةعلماءہندکے صدروصدالمدرسین دارالعلوم دیوبند مولاناسید ارشدمدنی اور دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی نے خطاب کیا۔

مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ہم عصری تعلیم کے ہرگزہرگز خلاف نہیں ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کے بچے انجینئر، سائنس داں، قانون داں اورڈاکٹربنیں، بڑھ چڑھ کر مسابقتی امتحانات میں حصہ لیں اورکامیابی حاصل کریں، لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارابچہ مذہب کے عقیدہ کوسیکھ لیں، اس لئے کہ جس طرح قوم کو ڈاکٹر، قانون داں ، بیرسٹراورانجینئرکی ضرورت ہے، اسی طرح ہماری قوم کو بہترسے بہتر مفتی اوربہترسے بہتر عالم دین کی ضرورت ہے، جو مدارس سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ 
مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ ہمیں مسجد کے امام اورموذن کی ضرورت ہے، حلال وحرام کی تمیز بتانے والے مذہبی لوگوں کی ضرورت ہے اورایک ہم ہی کو نہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مذہبی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے جنگ آزادی میں مدارس اسلامیہ بالخصوص دارالعلوم کے کردار اوراس کے قیام کے مقاصد کو تفصیل سے بیا کیا اورکہاکہ دارالعلوم کے مقاصدقیام میں صرف تعلیم نہیں، بلکہ ملک کی آزادی تھی اور اس کےلئے ارباب مدارس میں سربکف جدوجہد آزادی میں عملی کردارپیش
کیا، تاہم حصول آزادی کے بعد علماءکرام سرگرم سیاست سے بالکل الگ ہوگئے اورانہوں نے ملک وملت کی خدمت کےلئے ہی اپنی سرگرمیاں باقی رکھیں۔ انہوں نے
وضاحت کی کہ مذہبی شخصیات کے کندھے پر مذہب کی ذمہ داری ہے، مدارس میں امام، موذن ، مفتی اورقاضی تیارہوتے ہیں، جو مسلمانوں کے مختلف شعبہ
جات کی نمائندگی کرتے ہیں، بالکل اس طرح جس طرح برادران وطن کو مندروں کےلئے پجاریوں اور پنڈوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے صاف لفظوں میں کہاکہ یوپی گورنمنٹ کے حالیہ سروے سے ہم پریشان نہیں ہیں اور مدارس کے ذمہ داران سے کہتے ہیںکہ مدارس کے نظام کو درست کریں، مثلابیت الخلا،باورچی خانہ، احاطوں کی صفائی کےلئے مستقل ایک ملازم رکھیں، حساب وکتاب بالکل صاف وشفاف رکھیں۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ دارالعلوم میں اس کے قیام سے ہی عصری تعلیم کا نظام ہے، بلکہ جب میں ناظم تعلیمات تھا شعبہ پرائمری اور درجات عربی سے پہلے 7 سال پرائمری کی تعلیم ہوتی تھی، جس میں حساب، سائنس، جغرافیہ، انگریزی کی تعلیم ہوتی تھی، پورے نصاب کو5 سالہ نصاب بنایا گیاتھا ، عربی درجات سے پہلے 7 سالہ نصاب میں عصری مضامین کو بطور نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آئندہ ارباب دارالعلوم کا ارادہ ہے کہ حفظ کے درجات میں بھی عصری تعلیم ہو دوگھنٹہ ہونگے۔ انہوں نے کہاکہ سروے کے دوران اطمینان وسنجیدگی کامظاہرہ کریں اور سروے ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ ارباب مدارس کو چاہئے کہ وہ
مدرسہ جس زمین پر قائم ہیں اس کے کاغذات وغیرہ مکمل کرکے رکھیں۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنی مسجدوں اورمدرسوں کے لئے کسی سرکاری مددکی ضرورت نہیں البتہ سرکاراگر ہم سے اسکول، کالج یہاں تک کہ یونی ورسٹی قائم کرنے اوراس میں تعاون دینے کو کہتی ہیں توہم اس کے لئے تیارہیں، انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کی اس بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ کم ازکم بچوں کو ہائی اسکول تک عصری تعلیم دی جانی چاہئے، انہوں نے کہاکہ بہت سے مدارس میں پہلے سے عصری تعلیم کانظام موجودہیں اوران مدارس میں ایسانہیں ہے ہم ان سے کہیںگے کہ وہ اپنے مدارس میں بھی عصری تعلیم کا نظام نافذ کرنے کی مکمل کوشش کریں۔ مولانا مدنی نے آخرمیں کہاکہ جہاں تک دارالعلوم دیوبند اوردوسرے مدارس کا تعلق ہے ہم اس بات کوایک بارپھر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرکارسے ان کی کوئی مقابلہ
آرائی نہیں ہے بلکہ ان کا رویہ ہمیشہ تعاون کارہاہے اس لئے کہ ان مدارس میں مذہبی تعلیم سے آاراستہ کرکے بچوں کو ایک اچھاشہری اوراچھاانسان بنایاجاتاہے ۔
دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی تاریخ نہایت تابندہ اور کردار بے پناہ روشن ہے، یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس نے اس ملک میں جد و جہد آزادی سے لے کر اب تک ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کیا ہے،اب حکومت کی جانب سے مدارس کا جائزہ لیاجارہا ہے، جس کے ذریعہ مدارس کے تمام اعداد و شمار جمع کرائے جارہے ہیں، اب تک جائزہ کاروں کا جو رویہ اور رجحان سامنے آیا ہے اس کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ ذمہ داران مدارس کو اس سروے سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بیداری اور حکمت عملی کے ساتھ اپنے مدارس کے نظام کو شفاف رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے ایک اعلامیہ کے ایک حصہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمام مدارس اسلامیہ حالیہ سروے کے عمل سے کسی خوف یا ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں، نہ کسی جذباتیت کا مظاہر ہ کریں بلکہ اس کو ایک ضابطہ کی کارروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرز عمل اختیار کریں، تمام مدارس حکومت کی سروے ٹیم کو صحیح اور واقعی معلومات فراہم کرائیں تاکہ کسی جانچ وغیرہ کے موقع پر دشواری نہ ہو، اگر ضابطہ کے اعتبار سے
انتظامات میں کسی طرح کی کچھ کمی ہو تو جلد ہی اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں، مالیات اور زمینی ملکیت وغیر ہ کے کاغذات چست ودرست رکھیں اور
مدرسہ میں طلبا کے صحت مند ماحول کے لئے صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر