سہارنپور: سمیر چودھری۔
دشا سوشل آرگنائیزیشن کے زیرِ اہتمام”خواتین کے مسائل اور میڈیا کا کردار“ کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں دہلی اترا کھنڈ اور سہارنپور سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے تقریباً 50صحافیوں نے حصّہ لیا اور خواتین کے مفاد کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکنان نے بھی شرکت کی۔ پروگرام کا افتتاح سہارنپور کے سابق اسمبلی رکن وسابق ریاستی وزیر سنجے گرگ نے شمع روشن کرکے کیا۔
اس موقعہ پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہو ئے سنجے گرگ نے کہا کہ خواتین کو خود کفیل کئے بغیر کوئی بھی ملک اورقوم ترقی نہیں کرسکتے ۔انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ خواتین کیساتھ آج بھی صنفی امیتاز برتا جا تا ہے اور وہ گھریلو تشدد کا شکار بنا ئی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ امتیاز سماجی سطح پر بھی اور سیاسی سطح پر بھی برتا جا تا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداواری وسائل پر خواتین کی حصّہ داری نہ کے برابر ہے ۔ زراعت کے شعبہ میں ملک میں خواتین صرف 6فیصد کاشت کی زمینوں کی مالک ہیں ۔ انہوں نے سرکاری سطح پر امتیاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سرکاروں نے پنچایتوں اور بلدیہ میں تو 33 فیصد رزرویشن دیا ہے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نہیں دیا گیا ہے۔انہوں ملک میں مرد و خواتین کے بگڑتے تناسب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں 100مردوں کے مقابلہ محض 91 خواتین ہیں اور عالمی سطح پر اس معاملہ میں ہم گذشتہ دو سالوں سے 108ویں مقام پر ہیں ۔ دشاسوشل آرگنائیزیشن کے بانی کے این تیواری بتا یا کہ صنفی امتیاز اور گھریلو تشدد کے مسئلہ پر دشا سوشل آرگنائزیشن گذشتہ 40سال سے کام کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج کی ورک شاپ کا مقصدخواتین کے مسائل کو میڈیا کیسے سامنے لائے اس پر غور کرنا ہے انہوں نے کہا کہ میڈیا خواتین کے مسائل کے تئیں عوامی بیداری لانے اور خواتین کی آواز کو بلند کر نے میں اہم کردار نبھا سکتا ہے۔ دہلی سے آئی معروف صحافی الکا آریہ نے عالمی تناظر میں خواتین کے مسائل کو پیش کرتے ہو ئے کہا کہ دنیا کی ترقی کے باوجود خواتین کو سماج میں برابری کا درجہ آج بھی نہیں ملا انہوں نے کہا کہ دنیا بھر خواتین تشدد کا شکار بنائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے خود کفیل ہو نے کے ساتھ ساتھ خواتین کو سیلف ڈفینس کی بھی ٹریننگ دیجا نی چاہئے اور اسکول کالجوں میں اس سیلف ڈفینس کی ٹریننگ کرائی جا نی چا ہئے ۔ سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد زبیری نے خواتین کیساتھ گھریلو تشدد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1983میں ہمارے ملک میں گھریلو تشدد کو ایک جُرم قرار دیا گیا تھا اور 2005 اس کیخلاف ایکٹ پاس کیا گیا اور 2006 میں باقاعدہ اس کو ایک قانون کا درجہ دیا لیکن اس کے بعد بھی یہ جُر م جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں گھریلو تشد د کی خبریں شائع کی جا تی ہیں اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی پیش کی جا تی ہیں لیکن اس پر مباحثہ اور ڈیبیٹ وغیرہ نہ کہ برابر ہوتا ہے ۔نر بھیا کیس میں میڈیا میں یہ ایشو کافی گرم رہا اور خواتین بھی سڑکوں پر اتریں لیکن اس کے بعد نہ جا نے روز بروز کتنے نربھیا کیس ملک میں ہو رہے ہیں خواتین بھی خاموش ہیں اور میڈیا بھی گونگا ہے ۔ اترا کھنڈ سے تشریف لائیں سماجی رہنما گیتا گرولا نے کہا کہ جب تک خواتین خود سڑکوں پر نہیں اتریں گی خواتین کی آواز کہیں سُنی نہیں جا ئے گی ۔وکلپ سماجی تنظیم کے بانی اشوک چودھری نے کہا کہ پیداواری ذرائع میں خواتین کی حصّہ داری خواتین کے بہت سے مسائل کا حل ہو سکتی ہے۔جہانوی تیواری اور ریحانہ ادیب نے بھی اظہارِ خیال کیا ۔ اس موقع پر شرکت کرنے والوں میں پی رام، تسنیم، شاہین، ریکھا سریشو، رضیہ، گنجن گرگ، مکیش، رجنیش، نیلم، ارون، ریاست، ہریچند، سمن، گیتا، منوج، انت، قربان، اعجاز، دیپک، راکیش، جی ایم گاندھی، گوتم، دیپانشو شرما، اما ن اللہ خاں، انل کچھاڑیہ، مدن، گیانیش،نتن شرما، شنکر، راکیش ٹھاکر، سدھیر دھیمان، سونو قریشی، دھرمیندر، پرتبھا اور گر میت وغیرہ موجود رہے۔
0 Comments