موبائل : 8954735595
موجودہ دور کے اندر پیالی میں طوفان آجانا کوئی بڑی بات نہیں، وہاٹس ایپ کے ذریعہ آپ پوری قوم و ملت کو لمحہ بھر میں زمین دوز کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بار نہیں متعدد بار ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر ایسا ہی ہوا جب ایک ویڈیو نے نہ صرف دیوبند، نہ صرف ملک بلکہ بیرونِ ملک میں بھی ہنگامہ کھڑا کردیا اور ہمیشہ کی طرح قوم و ملت دو حصوں میں تقسیم نظر آئی۔ ایک پر الزام لگا کہ یہ دارالعلوم دیوبند کو بدنام کرنے کی سازش ہے، دوسرے نے یہ الزام لگایا کہ دیوبند میں اس وقت چل رہے سو مدرسوں میں تعلیم و تربیت اور نظم نام کی کوئی چڑیا نہیں ہے۔ دراصل واقعہ آپ کے علم میں ہے۔ کل ایک ویڈیو کے ذریعہ ہنگامہ کچھ اس بات پر ہوا کہ حضرت شیخ الہند ہال میں ایک شاعرہ جن کا نام اقراء نور بتایا جارہا ہے اور جن کا تعلق ضلع سہارنپور سے ہے اپنا کلام پڑھ رہی تھیں اور طلباء کسی تھرڈکلاس یونیورسٹی کے اوباش قسم کے لڑکوں کی طرح داد و تحسین اچھل اچھل کر دے رہے تھے۔ ان کا یہ انداز قطعی بازاری قسم کا تھا اور اس کے کلام سے زیادہ وہ اس کی خوبصورتی پر جاں نثار کرتے ہوئے بندروں کی طرح اچھل کود رہے تھے۔ سنا جارہا ہے کہ مظفرنگر کے نامور شاعر ارشد ضیاء صاحب حال ہی میں دیوبند منتقل ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس مشاعرہ کا انعقاد کرایا تھا۔ ابتداء میں منیجر مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند جناب سہیل صدیقی صاحب نے حضرت شیخ الہند ہال دینے سے انکار کردیا تھا مگر بعد میں ایک سفارش پر یہ ہال ان کو دیدیا گیا بغیر کسی شرائط اور فیس کے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔ ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم لوگ ہر مسئلہ کے اوپر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں جس میںایک حملہ آور ہوتا ہے اور دوسرا دفاع میں لگ جاتا ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی خامی ہے اور اس میں مجرم صاف بچ کر نکل جاتا ہے۔
گزشتہ دس پندرہ سالوں سے دیوبند کے اندر ادب کے نام پر منعقد ہونے والی نشستیں اور مشاعرے جسم فروشی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اور اس سے کوئی شخص انکار بھی نہیں کر سکتا۔یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ اس میں سبھی شعراء یا تنظیمیں ملوث نہیں ہیں، اس کے باوجود چند لوگوں نے اس کو ایک کاروبار بنا لیا ہے۔ وہ چند شاعرات کو دیوبند کے اندر قیام کراتے ہیں اور جسم فروشی کا کاروبار کئی دنوں تک چلتا ہے۔ اسی لئے اردو سے نابلد افراد بھی عہدوں اور پیسوں کے بل پر ان مشاعروں میں حصہ داری کر رہے ہیں اور اسٹیج کی رونق بن رہے ہیں۔ اس میں چند غیر مسلم حضرات بھی شامل ہیں جنہوںنے اسے اپنا روزگار بنا لیا ہے۔
اب آئیے اصل مدعے کی طرف! اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد متعدد تبصرے منظر عام پر آئے۔ ایک طبقہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ دارالعلوم کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور ایک فرقہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ دارالعلوم کو کسی بھی عنوان سے بدنام کیا جائے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اسے بے انتہاء معیوب بنا کر پیش کر رہا ہے اور وہ دارالعلوم کی انتظامیہ پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ ہمارے خیال سے یہ دونوں ہی طبقے ایک غلط روش پر ہیں۔ دارالعلوم کے اطراف میں کسی بھی طرح کا پروگرام ہو چاہے اصلاحی جلسہ ہو یا پھر مشاعرہ، طلبہ بڑی تعداد میں اس میں حصہ لیتے ہیں، اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہی بات اس مشاعرہ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔اس بحث میں قطعی نہ جائیے کہ حضرت شیخ الہند ہال کس کا ہے اور کیوں ہے؟ اس کو مدنی ہال کیوں لکھ دیا؟ کیا اس سے قبل دیوبند کے اندر اس طرح کی فحش نشستوں کا انعقاد نہیں ہوا؟ طلبائے مدارس نے اس میں حصہ داری نہیں کی؟ پھر اس بار ایسا کیا ہوگیا؟ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کا حوالہ دے کر کیوں رونا رویا جارہا ہے؟ کیا پوری قوم اس وقت کرکٹ کا ورلڈ کپ نہیں دیکھ رہی؟ کیا پوری قوم شاہ رخ خان جوان اور پٹھان سے لطف اندوز نہیں ہو رہی؟ کیا پوری قوم سلمان خان ٹائیگر 3 کی منتظر نہیں ہے؟ اس وقت دیوبند کے ہر میرج ہال میں شادیوں کا انعقاد ہو رہا ہے، دعوتوں کا دور ہے، پھر سب یہ فضول کے سوالات اور جوابات کیوں؟ افسوس اس بات کا ہے کہ اس مدعے پر امیرالہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی ٹیلی فون پر گفتگو تکلیف دہ ہے۔ ان کا اس بات سے پلّہ جھاڑنا کہ یہ دارالعلوم کے طالب علم نہیں ہیں انتہائی افسوس ناک ہے۔ آپ موجودہ وقت میں دیوبند کی ناک ہیں ، عظمت ہیں، عزت ہیں، امیر الہند ہیں، رابطہ عالم اسلامی کے رکن ہیں۔ ان حالات میں آپ کا یہ کہہ دینا کہ یہ دارالعلوم کے طالب علم نہیں ہیں باعث اذیت ہے۔ حضرت! آپ کو یہ کہنا تھا کہ ویڈیو کی بنیاد پر ہر مدرسہ اس کا ذمہ دار ہے، وہ اپنے طلبہ کی شناخت کرے اور ان کا اخراج کرے۔ مگر ہم نے بے حد چالاکی کے ساتھ پورے معاملے کو ایک دوسرے پر ڈال دیا اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر الزام تراشی کرنے لگا۔ اس مسئلہ پر حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب کی بھی ایک ویڈیو آئی جس میں انہوں نے طلبہ کی تربیت پر سوال اٹھایا۔
بس ہماری گفتگو کا موضوع بھی یہی ہے۔ دیوبند کے اندر اس وقت تعمیری ترقی خوب ہے مگر تعلیم و تربیت صفر ہوچکی، چاہے اسے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن اس سچائی سے آپ منہ نہیں موڑ سکتے اور اگر موڑ بھی لیں تو آپ کا منہ سیدھا کرنے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں۔ خانقاہی نظام، تربیتی مجلسیں سب دفن ہوچکیں۔ بہترین مکانات ہیں، لمبی لمبی گاڑیاں ہیں، مال و دولت کے نام پر ارب پتی ہیں، طلبہ سے دوری ہے، صرف اسباق کی حاضری کو مدرسہ اور تعلیم سمجھ لیا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک بار کہا تھا کہ تعلیم سے بڑی تربیت ہے۔ یہ جملہ نہ صرف مدارس بلکہ ہر اس ادارہ کے لئے ہے جس میں چاہے جس طرح کی بھی تعلیم دی جارہی ہو۔ مدارس میں اس وقت ایک کھیل بڑا عام ہے کہ رہائش گاہ سے زیادہ طالب علم ہیں۔ طلبہ کی بڑی تعداد مدارس سے باہر رہ رہی ہے اور اپنی مرضی کی عیش و عشرت کی زندگی جی رہی ہے۔ مدارس نے اپنی روئیداد اور اپنے چند ے میں ان طلباء کو شامل کر رکھا ہے جب کہ ان طلبہ کا مدرسہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ کرائے کے کمروں میں رہ رہے ہیں اور اپنی من مرضی کی زندگی جی رہے ہیں۔ رات کو دو تین بجے تک یہ سڑکوں پر آسانی سے مل جائیں گے،ان سے سوال کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ مدارس میں صدر دروازے کے بند ہونے اور کھلنے کا کوئی وقت نہیں ہے، طالب علم آرہے ہیں اور جارہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ طلبہ ہر مجلس کی رونق رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دیوبند اور اس کے اطراف میں منعقد ہونے والی اس طرح کی فحش مجالس میں جن کو اردو ادب اور مشاعروں کا نام دیا جاتا ہے طلبہ اتنی بڑی تعداد میں پہنچ کیسے جاتے ہیں؟ اس پر مدارس کی انتظامیہ نہ غور و فکر کرتی ہے اور نہ کوئی کارروائی کرتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس نے گزشتہ دو دنوں سے عالمی سطح پر دیوبند کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے اور ذمے داران نے پلّہ جھاڑ لیا ہے۔ جو لوگ دور بیٹھ کر ویڈیو بنا رہے ہیں وہ اکثر قاسمی برادری کے ہیں، انہیں قطعی طور پر اس پر شرم نہیں آرہی ہے کہ وہ یہاں کے حالات سے واقف ہیں اور اس کے باوجود دفاع کر رہے ہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ وہی چندہ خور جماعت ہے جو اس طرح کا دفاع کرکے برائی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ آخر میں یہی لکھا جائے گا کہ دیوبند کے تمام مدارس کو چاہئے کہ ان ان طلبہ حضرات کی پہچان کرے اور ان کا اخراج کرے مگر کسی بھی مدرسہ کا کوئی بھی مہتمم یا کوئی بھی ناظم یہ عمل نہیں کرے گا کیوں کہ انہیں ان کی تعلیم و تربیت میں ادنیٰ سی بھی دلچسپی نہیں ہے، ان کی ساری توجہ اپنی قیادت، اپنے عہدوں اور اپنے مال و زر میں ہے۔
یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں۔ (ادارہ)
0 Comments