مملکت جارڈن کے سابق نائب وزیر اعظم اور ایجوکیشن منسٹر ڈاکٹر محمد ذنیبات نے آج دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا اور کہا دارالعلوم کی زیارت سے قلبی مسرت ہوئی۔ اس عظیم ادارہ کی مایہ ناز دینی وعلمی خدمات سے دنیا روشناس ہے اور اس ادارہ کی شہرت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ دارلعلوم دیوبند آنے کی تمنا مدت سے دل میں تھی جو آج پوری ہوئی ہے لیکن یہ ایسی پرکشش اور ارض مقدس ہے جہاں سو دن بھی قیام کیا جائے تو بھی حسرت پوری نہ ہو ۔دارالعلوم دیوبند پہنچنے پر ادارہ کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی، نائب مہتمم مفتی محمد راشد اعظمی،پیشکار مفتی محمد ریحان قاسمی ،شعبہ انگریزی کے استاذ مولانا عبدالملک،آن لائن فتویٰ کے ناظم مفتی محمداللہ اور دیگر ذمہ داران ادارہ نے ان کا خیر مقدم کیا۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم وشیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادارہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس دانشگاہ کا فیض تمام عالم کے گوشے گوشے تک پہونچا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند ملت اسلامیہ کے نونہالان کی علمی خدمات انجام دے رہا ہے اور اس طبقے تک علم دین پہنچا رہاہے جہاں انسان اور علمی تحریک کی پہنچ مشکل ہوتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ غریب اور نادار طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے ، دونوں وقت کا کھانا ، درسی کتب اور رہائش کا نظم دارالعلوم دیوبندکی جانب سے بلاکسی معاوضہ کے کیا جاتاہے، اسی کے ساتھ ساتھ طلبہ کو نقد وظائف بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند میں ضرورت کے مطابق انگلش ، کمپیوٹر اور صحافت کی تعلیم اور تربیت کا بھی نظم ہے۔ ابتدائی درجات میں بچوں کو جنرل ایجوکیشن کے انداز میں تعلیم دینے کا نظم ہے۔ واضح ہو کہ جارڈن کے سابق نائب وزیر اعظم محمد ذنیبات ایک مشہور اسکالر ہیں جنہوں نے جارڈن میں علمی سطح پر نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں۔ محمد ذنیبات جارڈن فاسیٹ مائن کمپنی کے چیئرمین کی حیثیت سے دیوبند کے نزدیک روہانہ شوگر مل میں آئے ہوئے تھے ، یہاں سے انہو ںنے دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ روہانہ شوگر مل کے ذمہ داران اور مذکورہ کمپنی کے ذمہ دار سمیع سمیرات بھی آئے ہوئے تھے ۔ دارالعلوم دیوبند آنے پر کافی وقت دارالعلوم دیوبند کی زیارت میں گزارا۔ مسجد رشید میں عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد آئندہ پھر آنے کا وعدہ کرکے وہ رخصت ہوگئے۔ اپنے دورہ کے دوران ڈاکٹر محمد ذنیبات نے ہر قسم کی سیاسی گفتگو سے اجتناب کیا ، یہاں تک کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے موضوع پر بھی کوئی بیان نہ دے سکے۔
0 Comments