قومی راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر میں واقع تسمیہ آڈیٹوریم میں ہمالیہ ڈرگس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید فاروق احمد کی سرپرستی میں سہارنپور سے تعلق رکھنے والےمعروف صحافی ڈاکٹرشاہدزبیری کی کتاب ’باتیں ملاقاتیں‘ کا اجرا عمل میں آیا۔
تقریب کی نظامت معروف اسکالر ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے کی ۔اس موقع پرمہمان خصوصی سابق وائس چانسلر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ جب تک صحافت میں شاہد زبیری جیسے بے باک ، ایماندار اور حساس صحافی موجود ہیں اردو کی عظمت پر کسی قسم کی آنچ نہیں آسکتی ، کیونکہ کسی زبان کی بقا کا انحصاراس زبان کے قارئین پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے۷۶؍ سال ہو گئے ہیں۔’ ہندی‘ ملک کی قومی زبان ضرور بنی، مگر ’راجیہ بھاشا‘ اب تک نہیں بن سکی ،جب تک اردو پڑھنے والے اس ملک میں رہیں گے ،اس کی عظمت کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ شاہد زبیر ی نے اپنی کتاب میں تمام مکتب فکر خاص طور پر خواتین کی نمائندگی کو شامل کیا ہے، اس سے ان کی وسیع ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نیز انہوں نے مصنف سے یہ بھی درخواست کی کہ جس طرح سے انٹرویو پر مبنی کتاب آج ہمارے سامنے ہے، شاہد زبیری کے مضامین کا مجموعہ بھی آنا چاہیے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ماجد نظامی نے کہا کہ کتاب کے تعلق سے میں نے زیر موضوع کتاب پر تفصیل سے لکھ دیا ہے، اسے قارئین پڑھ لیں گے، مگر آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ نہ صرف اردو پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے، بلکہ دوسری زبانوں کا بھی یہی حال ہے۔ کتاب شائع کر دینا ،اخبارات میں مضمون لکھ دینا، بڑی بات نہیں ہے ،بلکہ اردو پڑھنے والے دھیرے دھیرے ختم ہو رہے ہیں، جس کے سبب مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے گھروں میں اردو اخبارات پابندی سے منگوانا چاہیے اور نئی نسل کو اردو پڑھنے پڑھانے کی طرف راغب کرنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنے گھر کے اندر اردو کا ماحول پروان چڑھائیں۔ سینئر صحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ’ باتیں ملاقاتیں ‘ کتاب دراصل انٹرویو پرمبنی کتاب ہے۔دراصل کسی کا انٹرویو لینا تو بہت آسان کام ہے، مگر انٹرویو دینے والوں سے زیادہ انٹرویو لینے والوں کی صلاحیت نمایاں ہوتی ہے اور شاہد زبیر ی کا کمال ہے کہ وہ سامنے والوں کو بغیر اشتعال دلائے اپنی منشا مراد حاصل کر لیتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب مصنف کے مضامین کا مجموعہ بھی سامنے آنا چاہیے ،تاکہ نئی نسل صحافت کی باریکیوں سے روشناس ہو سکے۔
معروف کالم نگار سہیل انجم نے کہا کہ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ جس فیلڈ کے ماہرین کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان سے انہی سے متعلق موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، چاہے بابری مسجد کا مسئلہ ہو یا فنون لطیفہ، تاریخ ہو یا شرعی امور ہر موضوع کو نہایت ہی سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے، نیز شاہد زبیری کی تحریروں میں ملی ہمدردی اور ملی مسائل کا کرب محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پروگرام کے داعی معروف صحافی سید منصور آغا نے کہا کہ شاہد زبیری کی صحافت اور ان کی تحریریں بے باک اور غیر جانبدار ہیں، جو امتیازی خصوصیت آج کے صحافیوں میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کتاب کے مرتب ڈاکٹر عبید اقبال نے کہا کہ شاہد زبیری سے ہمارا برسوں پرانا رشتہ ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب میں جن شخصیات کا انٹرویو کی شکل میں احاطہ کیا ہے کتاب کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وہی کافی ہے۔ اسلامیہ کالج سہارنپور کے سابق پرنسپل جلال عمر نے کہا کہ شاہد زبیری کی صحافت ایمانداری پر مبنی ہے، ان کی پوری صحافتی زندگی ملی جذبہ سےسرشار ہے۔ ان کی تحریروں میں مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی جھلک ملتی ہے۔ کتاب کے مصنف شاہد زبیر نے کہا کہ میرا ایک خواب تھا، جسے آج اللہ تعالی نے پورا کر دکھایا اور یہی کتاب میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ آبدیدہ ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری نگاہ میں میری زندگی کو پروان چڑھانے میں میری شریک حیات کا غیر معمولی کردار رہا ہے، جبکہ میرے والد میرے اس پیشے کو لے کر کافی متفکر تھے اور اہلیہ نے ہر موڑ پر مجھے سہارا دیا اور مجھے یہاں تک پہنچایا ۔ نیز انہوں نے ڈاکٹر عبید اقبال عاصم، شاہ عالم اصلاحی خاور حسن، مرحوم عبدالقادر شمس کی حوصلہ افزائی کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبد الملک مغیثی نے کہا کی شاہد زبیری کی صحافت سے نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
صدر جلسہ ڈاکٹر سید فاروق احمد نے کہا کہ مرد کی زندگی عورت کا کردار کیا ہوتا ہے اسے شاہد زبیری نے اپنی تقریر میں ذکر کر دیا ہے، اس کی گواہی ان کے اہل خانہ کی یہاں موجودگی خود دے رہی ہے ،کیونکہ ماں کے قدموں میں ہمارے بچوں کی جنت ہے۔ آخر میں شاہ عالم اصلاحی کے کلمات تشکر کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر سہیل انجم کی کتاب زیارت حرمین شریف کی بھی رونمائی ہوئی۔ پروگرام میں مقررین کے علاوہ حاضرین میں خالد محمود،ارشد ندیم، ندیم زبیری، حمیرہ ندیم، الیاس سیفی، منور حسن کمال ،مفتی محمد سلیمان، ظفر قاسمی، حمزہ شاہد، فرزانہ، اورنشرہ شاہد کے نام قابل ذکر ہے۔
0 Comments