دیوبند: سمیر چودھری۔
”ہٹ اینڈ رن“ معاملہ میں مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے نئے قانون کے خلاف بس اور ٹرک ڈرائیوروں کی یونین نے نئے سال کے پہلے روز جام لگا کر ہڑتال شروع کر دی اورنئے قانون کو واپس لینے کی مانگ کی۔ ہڑتال کا اثر سہارنپور سے میرٹھ تک مغربی یوپی سمیت پورے صوبے میں دیکھنے کو مل رہا ہے،جس کے باعث مسافروں کو کافی پریشانیوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ تفصیل کے مطابق نئے سڑک حادثہ سے متعلق قانون کے خلاف روڑویز اور پرائیویٹ گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے نئے سال 2024 کے پہلے روز ہڑتال شروع کر دی ہے، جس کے سبب سہارنپور اور مظفر نگر ڈپو کی اکثر بسیں اسٹینڈ پر کھڑی رہیں، ڈرائیوروں کی اپیل پر پرائیویٹ ڈرائیوروں نے بھی اپنی گاڑیاں کھڑی کر دیں۔ ڈرائیوروں کی ہڑتال سے مسافروں کوکافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔آل انڈیا ٹرک ڈرائیور یونین نے یکم جنوری کو ہڑتال کا اعلان کیا،پیر کے روز صبح ٹرک ڈرائیور ہڑتال پر چلے گئے۔ اس دوران ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ دوسرے ڈرائیور بھی اس ہڑتال میںشریک ہو گئے۔ بس یونین کی جانب سے بھی نئے قانون کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد ڈرائیوروں نے روڑویز اسٹینڈ پر جاکر بسوں کا چکّا جام کر دیا، کسی بھی بس کو ڈپو سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا، جو بس پہلے نکل گئی تھی ان کو بھی راستے میں روک کر کھڑا کر دیا گیا۔ اچانک ہوئی اس ہڑتال سے مسافروں کو بہت مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ وہیںدیوبند میں ڈرائیوروں نے اپنی گاڑیاںکھڑی کر کے بس اڈے کے سامنے احتجاج کیااور مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے سڑک حادثہ کے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
ڈرائیور کاکہناہے کہ حادثہ کوئی جان بوجھ کرنہیں کرتاہے، انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ موقع سے بھاگتے ہیں تو انہیں سرکار ماردے گی اور اگر موقع پر رُکتے ہیں تو انہیںبھیڑ ماردے گی،اسلئے ان کامطالبہ ہے کہ قانون کو واپس لیا جائے۔ واضح ہو کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں انڈین جوڈیشل کوڈ کو منظوری دی گئی ہے، جسے آئی پی سی کی جگہ پر لایا جا رہا ہے، اس نئے قانون میں ہٹ اینڈ رن کے خلاف سخت دفعہ لائی گئی ہے، جس میں ہر سال 50ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان چلی جاتی ہے۔ نئے قانون کے مطابق اگر کوئی ڈرائیور سڑک حادثہ کے بعد فرار ہو جاتا ہے تو اسے 10سال تک جیل ہو سکتی ہے۔اس احتجاج میں سنجے ، ندیم، نوشاد، منپال، سلمان، شاکر، ونود، نریش، فرمان، کالو، صابر، شمیم، ستپال، نسیم، جبل، فرید، نواب وغیرہ شامل رہے۔
0 Comments