Latest News

مکاتب کو بند کرانے کا فرمان تشویشناک، علماء اور ماہر تعلیم منظم پالیسی کے تحت اہل اقتدار تک اپنی آواز پہنچائیں: مولانا عبدالمالک مغیثی۔

دیوبند: سمیر چودھری۔
چیف سیکرٹری انتظامیہ اتر پردیش کی جانب سے صوبے کے تمام ضلع مجسٹریٹ کے نام یہ خط جاری کیا گیا کہ بلاک تعلیمی افسر غیر منظور شدہ مکاتب کو نوٹس بھیج کر بند کروائیں اور وہاں سے طلبہ کو اسکولوں میں شفٹ کرائیں، جو تمام اہل مکاتب و مدارس اور پوری قوم و ملت کے لئے ایک نازک صورتحال ہے جس پر تمام اہل علم و علماءکو سنجیدگی سے سوچنے اور حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی سکریٹری شعبہ دینی تعلیم آل انڈیا ملی کونسل نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں جن پر کسی بھی طرح کا خطرہ امت مسلمہ کے وجود پر خطرے کے مترادف ہے، ان اداروں میں ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں اور حکومت کی جانب سے اس طرح کی کاروائی نہ صرف اساتذہ و طلبہ کے ساتھ لئے کے پریشانی کا باعث ہے بلکہ ہندوستانی آئین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔انہوںنے کہاکہ سرکاری و منظور شدہ مدارس کو ختم کرنے کی شروعات آسام سے ہوئی تھی جہاں حکومت نے ایک قانون کے ذریعے آسام مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ختم کر دیا اور دلیل یہ دی گئی کہ سیکولر ملک میں حکومتی خرچے پر مذہبی تعلیم نہیں دی جاسکتی جس کی نقل یوپی میں بھی کی گئی جس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
مولانا نے کہا کہ اسی وقت یہ احساس ہوچکا تھا کہ فیصلے کا تعلق اگرچہ منظور شدہ مدارس سے ہے لیکن مستقبل قریب میں اس کے اثرات پرائیوٹ اور بورڈ سے انسلاک نہ رکھنے والے مدارس تک بھی پہنچنے کے قوی امکانات ہیں اور حکومت اسی طرف گامزن ہے جو قوم مسلم کے لئے انتہائی پریشان کن مرحلہ ہے۔ مولانا نے اپیل کی کہ ہمارے علماءایک حکمت عملی تیار کریں اور اس نازک اور حساس موقع پر ضروری ہے کہ علماءو ماہرین تعلیم اور ملی تنظیموں کے ذمہ داران کا ایک وفد وزیر اعلی سے براہ راست ملاقات کریں اور حکومت کو طلبہ و اساتذہ کے تئیں سنجیدگی کا احساس دلائیں، نیز اس سلسلے میں وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی جائے۔ اگر ممکن ہو تو سیکولر سیاسی لیڈران سے بھی اس سلسلے میں ملاقات کر حمایت کا مطالبہ کیا جائے کہ ابھی تک کسی بھی سیکولر سیاسی لیڈر کی جانب سے مدارس کے حوالے سے کوئی مثبت بیان سامنے نھیں آیا ہے،نیز اس حوالے سے ایک مضبوط قانونی ٹیم بھی تیار کی جائے جو قانونا اس مسئلے کو حل کریں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر