دیوبند: سمیر چودھری۔
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور پولیس ٹیم نے دیوبند سے دو روہنگیا نوجوانوں کو حراست میں لیا ہے۔ دونوں سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی گئی۔ ٹیم نے نو گھنٹے سے زیادہ وقت دیوبند میں بتایا کہ اور حراست میں لئے گئے نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی گئی، بتایا گیا ہے کہ دونوں روہنگیا نوجوانوں کا لکھنو جیل میں بند بنگلہ دیشی مشتبہ سے تعلق ظاہر ہواہے۔ این آئی اے اور پولیس ٹیم جمعرات کی صبح قریب 4 بجے دیوبند پہنچی، ٹیم نے سب سے پہلے دارالعلوم دیوبندکے ذمہ داران سے ملاقات کی اور ان کو اعتماد میں لیکر ہاسٹل میں رہنے والے ایک طالبعلم سے پوچھ گچھ کی۔ جس کے بعد ٹیم محلہ عبدالحق (ٹپری) میں واقع پرائیویٹ ہاسٹل میں قیام پذیر خلیل اللہ ولد سعید ساکن میانمار (برما) کو حراست میں لیا گیا اور اسے لیکر محلہ کائستھواڑہ گئی۔ جہاں سے کرائے کے کمرے میں رہنے والے دوسرے روہنگیا رجیب اللہ ولد سونا علی کو حراست میں لیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں سے گھنٹوں تک آمنے سامنے بٹھاکر پوچھ گچھ کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں روہنگیائی نوجوانوں کالکھنو جیل میں بند بنگلہ دیش کی کالعدم تنظیم جماعت المجاہدین کے کارکن سے رابطے میں تھے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس تنظیم کی کئی پوسٹس کو لائیک بھی کیا تھا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایک نوجوان کے پاس سے تلنگانہ آدھار کارڈ بھی ملا ہے۔ جبکہ ٹیم نے ان کے قبضے سے برآمد ہونے والی دستاویزات اور الیکٹرانک ڈیوائسز اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔ این آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق حراست میں لیے گئے دونوں روہنگیائی نوجوانوں کے پاس اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے درست کارڈ ہیں اور ان کا دہشت گردی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ملا ہے،لیکن پوچھ تاچھ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سلسلہ میں عالمی شہرت یافتہ دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جن روہنگیائی نوجوانوں کو حراست میں لیکر این آئی اے نے پوچھ گچھ کی ہے، ان کا دارالعلوم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہاں کے طالبعلم ہیں، ان کا دارالعلوم دیوبند میں داخلہ نہیں ہے، ادارہ کے ایک طالبعلم سے ان کی شناسائی تھی، جس کے سبب ٹیم یہاں پہنچی تھیں، جو ضروری گفتگو اور معلومات کرکے واپس چلی گئی۔ ادھر این آئی اے کی ٹیم نے محلہ عبدالحق میں ایک 25 سالہ نوجوان سے بھی پوچھ تاچھ کی ہے۔ نوجوان گھر سے تھوڑے فاصلے پر چائے کی دکان چلاتا ہے۔اطلاع کے مطابق مذکورہ نوجوان نے حراست میں لیے گئے ایک روہنگیا کو اپنے شناختی کارڈ پر ایک سم کارڈ دلایا تھا۔ جس کی وجہ سے این آئی اے نے اس سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔
0 Comments